جدید دور میں غیر ممالک بالخصوص مغربی ممالک کی نقالی اور ان کی تہذ یب ہمارے معاشروں کا لازمی جز بن کر رہ گئی ہے۔ان کو اپنا ئے بغیر نہ ہماری تقریبات مکمل ہوتی ہیں اور نہ فنکشن۔ان کے بغیرہمیں ادھورا رے پن کا احساس رہتا ہے۔اسی طرح وہ ہمارے معاشروں کی کامیابی کی ضمانت بھی بنتی جارہی ہیں جنھیں موڈرن اور روشن خیالی کہہ کر مقبولیت دی جارہی ہے۔
عالم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی تقریبات، شادی وبیاہ،دیگر رسوم ، رواج اور طرز معاشرت میں اس کو اختیار نہ کر ے اس کادقیانوس ، قدامت پرست اور فنڈا منڈلسٹ کہہ کر مذاق اڑایا جاتا ہے اور اس کی مشرق پرستی پر منہ بنا لیے جاتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ لوگ اس کی جانب ‘انگلیاں ‘اٹھاکر اس پر تنقید کر تے ہیں۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے،رواج،طرز زندگی،کھانا پینا ، پہننا اوڑھنا، سماجیا ت ، انسانو ںسے ملنا جلنا،وعدے اراد ے ، الغرض سب کچھ انگریزی تہذیب زدہ ہو کر رہ گیا ہے۔ حالانکہ سادگی کا مقام ہمیشہ اعلا و برتر رہا ہے ۔ اس کا نام ہی مشرق ہے اور اسی کوقدامتی پرستی کہا جاتا ہے۔مگر آج مشرقی اقدار ،وہ زندہ اور پایندہ زندگی کے دستور و اصول،وہ روایتیں سب مغرب کے اور کلیسا کے آتش دان کی نذر ہو گئیں ۔نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم وہی کررہے ہیں جو مغربی ممالک میں ہوتا ہے ۔ آج ہم وہی سوچ رہے ہیں جو وہاں سوچا جارہا ہے ۔ہم اسی کی دعوت دے رہیں جو مغرب چاہتا ہے۔
اس پر طرفہ تماشا یہ کہ ہم اپنی کارکر دگیوں پرنازاں ہیں اور ہمیں اس بات کا قطعی احساس نہیں ہے کہ ہم اپنی تہذیب و اقدار قتل کررہے ہیں اور اپنے ہی حق میں کانٹے بورہے ہیں۔ ‘اپریل فول ‘یا ‘اپریل فول ڈے ‘مغربی ممالک کی ایک ایسی ہی دَین ہے جسے ہم نے گلے سے لگا رکھاہے اور اسے فروغ دینے کے لیے ہر سال’ انسانیت کا مذاق’ اڑانے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔انسانوں کوتکلیف دے کر خوش ہوتے ہیں اور اسے بہت بڑا کارنامہ تصور کر تے ہیں ۔اس کے لیے مارچ کے اختتام سے قبل ہی تیار یاں شروع کردی جاتی ہیں اورلوگوں کو بے وقوف بنانے اور انسانیت کے ساتھ بھدا مذاق کر نے والوں کے انگ انگ میں شرارتیں بھر جاتی ہیں ۔یہی نہیں بلکہ وہ اس کی ریہر سل بھی کئی روز پہلے سے شروع کر دیتے ہیں اور ماہ اپریل کی پہلی تاریخ ان کی ظلم رسانیوں کا نقطہ عروج بن جاتی ہے۔
Truth
شاید بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ آج کے وقت میں انسان پہلے سے زیادہ حساس ہے۔ماہرین نفسیات نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ اس طرح کی حرکتوں بلکہ اس سے بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل پر لے لیتا ہے ۔ یہ بھی یا د رکھنے کی بات ہے کہ دل حیثیت سے زیادہ برداشت کی قوت نہیں رکھتا۔ ذرا ذراسے صدموں سے ٹوٹ جاتا ہے ۔اس پر مستزاد یہ کہ’ اپریل فول’ جیسے بھدے مذاق کیے جائیں،دل کتنے حصوں میں تقسیم ہوگا ،کچھ نہیں کہا جاسکتا۔انسان کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھانے اور مشرق میں اضطراب و انتشار پھیلانے کے لیے مغرب نے اس طرح کی مذموم حرکتیں کی ہیں۔ ‘ اپریل فو ل ‘ کے بہانے مغربی د نیا کس قدر ہم پر ہنستی ہے اور ہمارا مذاق بنا کر معاشرتی بگاڑ و تخریب پیدا کر تی ہے ،اس کا اندازہ ہمیں نہیں ہے۔
ہو سکتا ہے ‘بے وقوف ‘ بن کر لوگ تھوڑی بہت دیر ہنس لیتے ہوں،یا وقتی طور پر نظر انداز کر دیتے ہوںمگر اس کے بعد جوانسان کا انسان سے اعتبارو افتخار اٹھتا ہے اور اس کے خلاف نفرت کے جوزہر سینوں میں بھر تے ہیں وہ دلوں کے زاویے بد ل دیتے ہیں ۔واضح ہونا چاہیے کہ’اپریل فول’ ایک ایسی مذموم رسم ہے جس کا آغاز یکم اپریل 1392 عیسوی میں مسلمانوں کو بے وقوف بنا کرہی کیا گیا تھا اور ان کو مراقش لے جانے والے جہاز کو بحیرۂ روم میںغرق کر دیا گیا تھا۔
مسلمان منہ زور لہرو ںمیں مدد مدد پکاررہے تھے اور ظالم انگریز جشن منارہے تھے۔ اس عظیم دغابازی پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقوام مشر ق مغرب کی تقلید کا قلادہ گلے سے اتارکر اسے سبق سکھاتیںمگرالٹا ہی ہوا۔اس المناک حادثے کو صدیاں گذر گئیں ،ان کی حالت جوں کی تو ںہے۔انھوں نے آج تک بھی اس سے سبق نہیں سیکھا بلکہ اب تو وہ اس بے راہ روی میں انگریز قوم سے بھی آگے بڑھتی جارہی ہیں۔شاید انھیں پھر ایسی ہی کسی موج حوادث کے تھپیڑوں کا انتظار ہے او روہ اسی طرح کی کسی دوسری انہونی کے منتظر ہیں ۔ یہ مقام عبرت و افسوس ہے کہ جو اقوام دنیا بھر میں انسانیت کی سب سے بڑی علم بر دارتھیں ،جن کے پاس آکر تڑپتی انسانیت کو آرام ملتا تھا اور زندگی کی سوغاتیں ،جس نے دنیا کو دستور حیات عطا کیا تھا اور طرز ندگانی سکھائی تھی وہی اقوام آج بے قوف بن رہی ہیں اور اس میں فخر محسوس کررہی ہیں۔