حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مکّہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو وہاں آپ ۖنے اہلِ مدینہ کو دو تہوار بڑے اہتمام سے مناتے دیکھا ۔دریافت فرمانے پر عرض کیا گیا کہ یہ دونوں تہوار زمانہ جاہلیت سے منائے جا رہے ہیں ۔حضرت انس کا بیان ہے کہ یہ سُن کر آپ ۖنے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے تمہیں اِس سے بہتر دو دن عطا فرما دیئے ہیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ ”۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ ایسے تہواروں سے منع فرماتے تھے جن میں غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے ۔آ پ ۖنے فرمایا ”جو کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے ، وہ اُنہی میں سے ہے ”۔دوسروں کی مشابہت اختیار کرنے کی اِس حد تک ممانعت تھی کہ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بِن عمرو العاص زرد رنگ کے دو کپڑے پہن کر جب بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے تو کپڑے دیکھ کر آپ ۖ نے فرمایا ”اِس طرح کے کپڑے کفار کے ہوتے ہیں ، تُم یہ نہ پہنا کرو”۔میرے آقاۖ کے اِن ارشادات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے دین میں غیر مسلموں کے طرزِ زندگی ، معاشرت اور اقدار کی نقالی کی سخت ممانعت ہے لیکن بدقسمتی سے ہم یہی تہوار بڑے اہتمام سے مناتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچتے کہ ربّ ِ کریم نے ہمیں دو عظیم تہوار عطا کر دیئے ہیں تو پھر ہمیں غیروں کی نقالی اور مشابہت اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟۔کیا ہم یہ تہوار منا کر غیرمسلموں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم اُن کی بودوباش اور طرزِ معاشرت سے متاثر ہیں ؟۔
یکم اپریل جسے ہم ” اپریل فول”کے طور پر مناتے ہیں ، دراصل یہ مغرب سے درآمد شدہ تہوار ہے جو صدیوں سے منایا جا رہا ہے ۔اِس تہوار کو منانے کی کوئی حتمی وجہ تو آج تک دریافت نہیں ہو سکی لیکن کہا جاتا ہے کہ سولہویں صدی تک فرانس میں سال کا آغاز جنوری کی بجائے اپریل سے ہوتا تھا اور چونکہ یہ سال کا پہلا دن تھا اِس لیے فرانسیسی اِس دن کو جشن کے طور پر مناتے تھے ۔اِس تہوار کے بارے میں جو بیشمار روایات ملتی ہیں اُن کے مطابق یہ تہوارکم از کم مسلمانوں کی توغیرت و حمیّت پر تازیانے کے مترادف ہے ۔ایک روایت یہ ہے کہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو 1857ء کی جنگِ آزادی میں شکست کے بعد رنگون کی جیل میں قید کر دیا گیا۔ایک دِن ایک انگریز آفیسر صبح کے وقت ایک تھال پر کپڑا ڈالے بہادر شاہ ظفر کے پاس آیا اور کہا ”لو ! ناشتہ کر لو”۔جب بہادر شاہ ظفر نے تھال پر سے کپڑا ہٹایا تو اُسے یہ دیکھ کر شدید دھچکا لگا کہ اُس میں اُس کے جوان بیٹے کا کٹا ہوا سر پڑا تھا ۔بہادر شاہ ظفر کی یہ حالت دیکھ کر انگریز قہقہے لگاتے ہوئے کہنے لگے”آج یکم اپریل ہے اور ہم نے آپ کو بیوقوف بنایا ہے” ۔ روایت ہے کہ برّ ِ صغیر میں یہ انگریزوں کا پہلا اپریل فول تھاجو اُنہوں نے مسلمانوں کے ایک مجبور اور بے بس قیدی شہنشاہ کے ساتھ منایا ۔دوسری روایت یہ بھی ہے کہ کہ” سکوتِ غرناطہ” کے بعد عیسائیوں نے مسلمانوں کا بے دریغ قتل کیا ، اُنہیں زبردستی عیسائی بنایا گیا اور جن مسلمانوں نے مذہب تبدیل کرنے سے انکار کیا ،اُنہیں زبردستی ، لیکن اِس وعدے کے ساتھ بحری جہازوں میں سوار کیا گیا کہ اُنہیں بحفاظت افریقہ کے ساحل پر اتار دیا جائے گا۔ جب بحری جہاز سمندر کے درمیان پہنچے تو سب کو قتل کرکے سمندر میں پھینک دیا گیا ۔یہ یکم اپریل کا ہی دن تھا۔
Roman
دراصل یکم اپریل یہودیوں کا تہوار ہے جس کے بارے میں ”انسائیکلوپیڈی لاروس”میں درج ہے کہ یہ دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایذا پہنچانے کے اُس دن کی یادگار کے طور پر منایا جاتاتھا جب اُنہیں گرفتار کرکے رومیوں کی عدالت میں پیش کیا گیا اور وہاں یہودیوں نے اُن کا جی بھر کے مذاق اُڑایا ۔لوقا کی انجیل میں درج ہے کہ یہودی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی آنکھوں پر کپڑا باندھ کر آپ کے مُنہ پر تمانچے مارتے ہوئے یہ کہتے رہے ”اب الہام سے بتا کہ تُجھے کس نے مارا ہے؟”۔اِس تہوار کے بارے میں بہت سی روایات اور بھی ہیں لیکن مصدقہ ایک بھی نہیں۔ ہندو کہتے ہیں کہ فطرت ماہِ مارچ کے آخر میں موسم میں تبدیلیاں کرکے دُنیا کو بیوقوف بناتی ہے ۔کبھی اچانک گرمی بڑھ جاتی ہے تو کبھی سردی کی شدت آ جاتی ہے ۔موسم کا یہ اتار چڑھاؤ فطرت کی طرف سے مذاق کے مترادف ہے اِس لیے فطرت کے اِس مذاق کے حوالے سے” اپریل فول” منایا جاتا ہے۔
بہرحال وجہ جو بھی ہو ،ہم مسلمانوں کے لیے قابلِ غور یہ ہے کی عین اُس موقعے پر جب فطرت ہمیں موسمِ بہار کی شکل میں حسین تحفہ دے رہی ہوتی ہے ، ہم جھوٹ بول کر اور ایک دوسرے کا مذاق اُڑا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم اِس تحفے کے لائق ہر گز نہ تھے ۔جھوٹ بولتے اور ایک دوسرے کو بیوقوف بناتے ہوئے ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ دینِ مبیں میں دھوکہ دہی اور جھوٹ بولنے کی سخت ممانعت ہے کیونکہ اِس کا نتیجہ ہمیشہ بے سکونی اور بے اطمینا نی کی صورت میں نکلتا ہے ۔ربّ ِ کریم کا ارشاد ہے ”اے ایمان والو! نہ مرد دوسرے مَردوں کا مذاق اُڑائیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں ،ہو سکتا ہے کہ وہ اُن سے بہتر ہوں(الحجرات:١١)”۔حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ”جو شخص دوسروں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹ بولتا ہے اُس کے لیے تباہی و بربادی ہے ”۔آپۖ ہی کا ارشاد ہے ”جو شخص جھوٹ ترک کر دے خواہ وہ مذاق ہی کر رہا ہو ، میں اُس کے لیے جنت کے درمیان ایک محل کی ضمانت دیتا ہوں ”۔لیکن ہم تو جا و بے جا جھوٹ بولتے ہیں اور ہنسنے ، ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا تو ہماری فطرت کا ایسا حصّہ بن چکا ہے جسے ہم ہر گز گناہ نہیں سمجھتے ۔ہمارے نیوز چینلز پر ہر روز اہسے پروگرام نشر ہوتے ہیں جن میں جھوٹ کا سہارا لے کر لوگوں کو ہنسایا جاتا ہے ۔ایسے پروگراموں میں پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں ، طنز کے تیر برسائے جاتے ہیں اور ہزل گوئی اور پھکڑ پن کی انتہا کر دی جاتی ہے ۔اِس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو گی کہ الیکٹرانک میڈیا پر ایسے پروگراموں کی ”ریٹنگ” بھی سب سے زیادہ ہوتی ہے اورعوام کی غالب اکثریت ایسے پروگراموں کو بڑے ذوق و شوق سے دیکھتی ہے ۔میں مزاح کے ہر گز مخالف نہیں اور نہ ہی دین میں اِس کی ممانعت ہے ۔میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خود ہلکے پھلکے مزاحیہ جملے ادا کیا کرتے تھے ۔میں تو یہ عرض کرنا چاہتی ہوں کہ ایسا مذاق جو کسی کی دِل آزاری کا باعث ہو اُس کی دین میں ہر گز اجازت نہیں ۔
دو دن بعد یکم اپریل ہے ۔مجھے یقین ہے کہ میرے اِس کالم کا کسی پر ”” اثر نہیں ہونے والا اور لوگوں نے یکم اپریل کو شام تک جی بھر کے ایک دوسرے کا مذاق اُڑانا ہے ۔مجھے یہ بھی یقین ہے کہ دوسروں کو بیوقوف بنانے کے لیے لوگوں ، خصوصاََ نوجوانوں نے بڑے بڑے منصوبے باندھ رکھے ہونگے اور وہ بڑی شدت سے اِس دن کا انتظار بھی کر رہے ہونگے لیکن میں یکم اپریل کے ”عاشقوں”کی اطلاع کے لیے عرض کر دوں کہ” انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ”میں اِس دن کا مطلب ”تمام بیوقوفوںکا دن ”ہے ۔گویا یہ دن منانے والے سبھی لوگ بیوقوف ہوتے ہیں ۔اب ظاہر ہے کہ یہ دن وہی منا سکتے ہیں جو ازلی ، ابدی بیوقوف ہونگے۔اِس لیے ہم تو یہ دن منا نہیں سکتے کیونکہ ہم تو اپنے آپ کو ”ارسطوِ دوراں ” سمجھتے ہیں۔