ٹی وی پر خبر چل رہی ہے کہ پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) مشرف کی طبعیت بگڑ گئی ہے انہیں آئی سی یو میںداخل کر دیا گیا ہے۔ چند دنوں سے ان کی والدہ محترمہ دبئی کے ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہیں۔ مکافات عمل دیکھئے کل کا ڈکٹیٹر آج قدرت کے نظام کے شکنجے میں کسا گیا ہے۔ ہم تاریخ کے طالب علم ہیں ہم نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے زمانہ خود ایک استاد بن کر سکھاتا ہے۔
یہ کچھ سال پہلے کی بات ہے جنرل مشرف اقتتدار کے سنگھاسن پر تھے وقت ان کی غلامی کر رہا تھا، عدلیہ بحالی کی تحریک میں ایک کارکن کی حیثیت سے میں ان دنوں کا عینی شاہد ہوں جب اس وقت کے صدر پاکستان اپنے آپ کو اس زمین کا خدا سمجھتے تھے ٣ نومبر ٢٠٠٧ کی ایمرجینسی کا دن ہم کارکنوں کے لئے موت سے کم نہ تھا۔اس روز میرے گھر چار ہٹے کٹے لوگ آئے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں شوکت خانم میں اپنا مریض داخل کرنے کے لئے آپ کی مدد درکار ہے۔میں سمجھ گیا کہ معاملہ خطر ناک ہے اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ ہم زیر زمین چلے گئے میں گجرانوالہ اور دوست اپنے اپنے عزیزوں کے ہاں غائب ہو گئے۔ایک روز گجرات سے لوگ خاص طور پر لائے گئے اور شاہراہ دستور پر جلوس کی شکل میں اکٹھے ہوئے انہوں نے ڈنڈوں کے آگے کیلیں لگا رکھی تھیں شکر خدا کا اس روز تصادم ٹل گیا ورنہ بڑی خوںریزی ہوتی۔کراچی میں جس دن چیف جسٹس گئے ان گنت لاشیں گریں۔اور اسی رات نشے میں دھت مشرف مکے لہرا لہرا کر لوگوں سے مخاطب تھے کہ دیکھا اسٹیٹ کی طاقت۔ طاقت تو خدا کے ہاتھ میں ہے کل کا مشرف آج آرمڈ فورسز ہسپتال میں رہتا ہے۔
یہ پاکستانی کمانڈو کی ایک بل ہے جس سے وہ کبھی کبھار گاڑیوں کے جلو میں نکلتا ہے اور پھر گھس جاتا ہے سابق صدر کا تعلق پاک فوج کے کمانڈوز سے ہے۔ان کی ان بزدلانہ حرکتوں سے پاکستانی فوج کے رعب داب میں کمی واقع ہورہی ہے۔لوگ اب اس موضوع پر ہنستے ہیں۔ وہ صدر جو کبھی کسی سے ڈرتا ورتا نہیں تھا آج اس کی ڈھیلی اور گیلی پتلون باعث تمسخر بن رہی ہے۔
مائیں بہت پیاری ہوتی ہیں۔ان کو بیٹوں کے دکھ بہت بھاری لگتے ہیں۔ ماں چاہے زرین بی بی ہو یا شمیم بی بی ۔میں ایک روز آمنہ مسعود جنجوعہ کی اپیل پر ایوان صدر کے باہر ہونے والے مظاہرے سے مخاطب تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے کہا تھا کہ محترمہ زرین صاحبہ جس طرح جھنڈہ چیچی دھماکے میں بخریت گھر پہنچ جانے والے بیٹے کی آپ نے بلائیں لی تھیں آج مسعود جنجوعہ کی ماں اور بیگم بھی اس کی منتظر ہے ان پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلائو لیکن سنگ مر مر کی اس عمارت میں بیٹھے مشرف اور ان کے حواریوں کو کب مظلوموں کی صدائیں سنائی دیتی ہیں۔آج دونوں ماں اور بیٹے الگ الگ ہسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کی وارڈ میں زیر علاج ہیں۔ہم آئے روز اپنے ہاتھوں سے جنازے دفن کرتے ہیں مگر اسی قبرستان میں قہقہے لگاتے ہیں ہم سوچتے ہیں مرنا ہم نے نہیں کسی اور نے ہے۔یہی کچھ مسٹر ڈرتا ورتا کرتا رہا۔قوم کی بیٹیاں بیچ کر ڈالر تو وصول کر لئے مگر آج پوری قوم کو امتحان میں ڈال رکھا ہے۔میں کبھی بھی نہیں کہوں گا کہ عدل خاموش رہے۔
Nawaz Sharif
میں اس روز کا بھی گواہ ہوں جب رمضان کے ایک دن حرم پاک میں مکہ المکرمہ میں میاں شریف کا جنازہ پڑھا تھا اور سرور پیلیس سے ان کا جنازہ ایک اجنبی کے ہاتھوں لاہور بھیجا گیا۔خود میاں نواز شریف جن کے ساتھ اس وقت میرا تعلق تھا انہوں نے مجھ سے کہا دیکھئے چودھری صاحب ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ایک باپ کا جنازہ لاہور بھیج دیا گیا ہمیں پتہ چلا کسی اور کو سا تھ جانے کی اجازت نہیں ہے۔ عافیہ صدیقی بھی تو کسی بیٹی ہے جو جنرل مشرف کے دور میں کراچی کی سڑکوں سے اٹھا کر امریکیوں کے حوالے کر دی گئی اس کی بھی ماں ہے کیا سمجھتے ہیں مصلے پر بیٹھی ماں جنرل مشرف کی صحتیابی کی دعا کرتی ہو گی؟ یہی مکافات عمل ہے کل انہیں عدالت میں پیش ہونا ہے اور آج وہ وہیں ڈھیر ہو گئے ہیں ان کا بلڈ پریشر ہائی ہو گیا ہے۔
قارئین! یہ کھیل ختم ہونا چاہئے قوم اس ہیجان میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جو کچھ مشرف کے ساتھ ہو رہا ہے وہ فوج کے ساتھ ہو رہا ہے۔میں اس سوچ کے سخت مخالف ہوں ایسا کہنے والے دراصل پاکستان کے دشمن ہیں کوئی غدار وطن ہی ہو گا جو پاک فوج کا مخالف ہو گا۔ اس کو اس تناطر میں لیں کہ پاکستان کے آئین کے ساتھ کھیلنے والے ملزم کے ساتھ عدالت انصاف کرنے جا رہی ہے۔اسے قانون کا شکنجہ تو کہا جا سکتا ہے مگر پاکستان کے ایک محترم ادارے کے ساتھ لڑائی کہنا حماقت ہو گی۔ اب وہ کس کے گرد کسا جاتا ہے اس کو جان لینا چاہئے۔فوج ہماری فوج ہے پاکستان کی فوج ہے اسے اس لڑائی سے باہر رہنا چاہئے اور اپنے ایک سابق چیف کو عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔
جو تنائو دیکھنے میں آ رہا ہے اس سے تو بعض اوقات معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے دشمن پاکستان کی فوج کو اشتعال دلوانے چاہتے ہیں کہ سابق آرمی چیف کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ فوج کے ساتھ ہو رہا ہے۔ایک صحافی نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ آرمڈ فورسز ہسپتال کے پاس سے گزرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے شاید یہ ایک جزیرہ ہے جہاں حکومتی رٹ نہیں ہے ،جنرل صاحب رٹ قایم کرتے کرتے خود ایک نان کنٹرولڈ نو گو ایریا بنا بیٹھے ہیں۔میں سمجھتا ہوں ایسا ہر گز نہیں ہے لیکنن پاکستان کے بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ اس ملک کسی نئے پھڈے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت اس کیس سے ہاتھ اٹھا لے اور جنرل مشرف کو محفوظ راستہ دے کر جاں خلاصی کر لی جائے۔اگر ان کے جرائم اور ان کی تاریخی غلطیوں کا حساب کیا جائے تو تو ریٹائرڈ جرنیل کو مثالی سزائوں سے نوازا جانا چاہئے لیکن ملکی حالات کو دیکھا جائے تو انہیں چھوڑ دینا چاہئے اور جمہوریت کی گاڑی کو پیش آنے والے خطرے سے بچا لینا ہی جمہوریت کی خدمت ہو گی۔ یہ تو ناممکن ہے کہ جنرل مشرف آرمڈ فورسز کو جدہ کا سرور پیلیس بنا لیں۔ اس ٹام اور جیری کے کھیل کو بلآخر ختم ہونا ہے۔