11 سال، تین عورتیں ، ایک کہانی

Karachi

Karachi

کراچی کے علاقہ گلشن اقبال میں ایک خاتون رہتی ہیں، جن کا نام عصمت صدیقی ہے۔ ان کے خاوند کا نام ڈاکٹر محمدصالح صدیقی ہے جو ملک کے ایک مایہ ناز نیوروسرجن تھے۔ یہ خاتون ایک استاد تو ساتھ ہی خدمت خلق کیلئے رضاکار ہونے کے حوالے سے شہرت رکھتی ہیں۔ ان کے ہاں تین بچوں کی پیدائش ہوئی لیکن ان کی ایک بیٹی عافیہ صدیقی کو جو شہرت ملی اس کا کسی کو گمان تک نہیں تھا… کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ 2 مارچ 1972ء کو پیدا ہونے والی اس بچی کو دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دے کر گولیوں کا نشانہ بنائے گی۔ اس پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گی اور پھر تھک ہار کر 86 سال کی سزائے قید سنا دے گی۔ مقدمہ بھی کیا خوب بنایا کہ عافیہ صدیقی نے افغانستان کے صوبہ غزنی میں جدید بندوق سے تین امریکی کمانڈوز کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہی تھی۔ اس کی ناکامی کی وجہ یہ بنی کہ اس کے لئے گولی چلانے سے پہلے اسے ایک اور امریکی کمانڈو نے گولی مار کر زخمی کر دیا تھا۔

پھر اسی عافیہ صدیقی کو بگرام کے اس امریکی جنگی اڈے میں لے جایا گیا تھا جہاں امریکہ کے مطابق اس کے سب سے خطرناک دشمن رکھے جاتے ہیں۔ یہاں عافیہ صدیقی کو قیدی نمبر 650بنایا گیا۔ اسے اس قدر ظلم و تعدی کا نشانہ بنایا گیا کہ اس کی چیخیں پہلے اس کے عقوبت خانے سے دوسری طرف سنائی دیں تو پھر ان کی صدا چہاردانگ عالم کو عبور کرتی دنیا کے اربوں انسانوں تک پہنچنے لگی۔

افغانستان میں جنگ کی رپورٹنگ کیلئے برطانیہ سے آنے والی خاتون صحافی ایوان ریڈلے نے چند دن طالبان کی قید میں کیا گزارے، اس کے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ اس نے طالبان کے رویے اور سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور پھر اسی ایوان ریڈلے نے اگست 2008ء میں ایک انکشاف کیا کہ بگرام کے عقوبت خانے سے جو سب سے بلند ودلدوز چیخیں سنائی دیتی ہیں، وہ کسی اور کی نہیں، وہ پاکستان کی عفت و عصمت، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہیں، جس کا قیدی نمبر 650ہے۔ یہ بیان سامنے آنے کی دیر تھی کہ دنیا میں ایک بھونچال سا آ گیا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اہل خانہ تو انہیں کئی سال سے تلاش کر رہے تھے لیکن وہ انہیں مل نہیں رہی تھیں۔ اب ان کے زندہ ہونے کی دلیل ان کے سامنے آئی تو وہ بھی میدان میں آ گئے۔

ابتدائی تعلیم افریقی ملک زیمبیا سے حاصل کرنے والی عافیہ صدیقی 8سال کی عمر میں کراچی آئی تھیں۔ کراچی میں گریجوایشن مکمل کرنے کے بعد 1990ء میں انہوں نے امریکہ کا رخ کیا جہاں ان کے بھائی پہلے ہی زیر تعلیم تھے۔ یہاں رہتے ہوئے عافیہ صدیقی نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور پہلے ہی امتحان میں مکمل سکالرشپ حاصل کر لیا۔ یہیں رہتے ہوئے ان کا رجحان دین کی جانب ہونا شروع ہوا اور پھر عافیہ نے دین کی تعلیم بھی حاصل کرنا شروع کی۔ اپنے تعلیمی کیریئر میں عافیہ صدیقی نے 145 ایوارڈز اور اعزازات حاصل کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا اور مختلف مضامین میں ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد نیوروسرجری میں بھی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ عافیہ صدیقی نے نیوروسائنس کے حوالے سے اتنا شاندار تحقیقی کام کیا کہ انہیں نیوروسائنسدان کا لقب دے دیا گیا۔ حافظہ قرآن، عالمہ دین عافیہ صدیقی کی شادی 1995ء میں کراچی کے ہی رہائشی ڈاکٹر محمد امجد خان نامی شخص سے ہوئی۔ عافیہ صدیقی کی دین سے محبت اتنی زیادہ تھی کہ اس نے جب یہ سنا کہ وہ ایک مکمل باریش اور دیندار شخص ہے تو اس نے بغیر دیکھے ”ہاں” کر دی اور پھر ٹیلی فون پر ان کا نکاح بھی ہو گیا۔

America

America

ڈاکٹر امجد اس کے بعد امریکہ پہنچے اور پھر دونوں نے یہاں طب کے میدان میں خدمات انجام دینا شروع کر دیں۔ یہاں عافیہ صدیقی کے ہاں دو بچوں کی پیدائش ہوئی، پہلا بیٹا محمد احمد 1996ء جبکہ بیٹی مریم 1998ء میں پیدا ہوئی۔ 1999ء میں انہوں نے امریکی شہر بوسٹن میں ”ادارہ تحقیقات و تعلیمات اسلامی” کی بنیاد رکھی جس کے سربراہ ڈاکٹر امجد خاں بنے تو اقامتی نمائندہ ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی بنیں۔ اس ادارے نے امریکہ بھر کی جیلوںمیں قرآن اور قرآنی تعلیمات کے پھیلائو اور تبلیغ کی بھرپور سرگرمیاں انجام دیں اور پھر یہیں سے ڈاکٹر عافیہ امریکیوں کی نظر میں کھٹکنے لگیں۔

امریکہ میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد جب مسلمانوں پر جگہ جگہ حملے شروع ہوئے تو ڈاکٹر عافیہ نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ 26جون 2002ء کو وہ پاکستان پہنچیں تو انہوں نے اپنے شوہر ڈاکٹر امجد سے کہا کہ افغانستان پر امریکی حملے اور مسلسل بمباری سے جو لوگ زخمی ہو رہے ہیں، ان کے علاج کے لئے افغانستان جانا چاہئے۔ اس پر ان کے اختلافات شروع ہوئے اور پھر ڈاکٹر امجد جس کا مذہبی میلان ڈاکٹر عافیہ کے بالکل برعکس تھا، اس سے انکار کیا تو اختلافات بڑھتے گئے اور پھر علیحدگی ہو گئی۔
30مارچ 2003ء کے روز ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے راولپنڈی جانے کے لئے ایئرپورٹ کی جانب روانہ ہوئیں، لیکن… وہ راولپنڈی تو کجا ایئرپورٹ بھی نہ پہنچ سکیں اور پھر… آج 30مارچ 2014ء کو ان کو امریکی تحویل میں گیارہ سال مکمل ہو گئے۔ اس عرصہ میں ان کے دو بچے محمد احمد اور مریم کو باری باری ”نامعلوم افراد” ان کے گلشن اقبال کراچی میں واقع گھر کے باہر چھوڑ کر چلے گئے لیکن تیسرے بیٹے سلمان کا آج تک کچھ پتہ نہیں۔ امریکہ نے عافیہ صدیقی پر القاعدہ کی انتہائی اہم رکن ہونے کا الزام عائد کیا تو ایف بی آئی نے گرفتاری کیلئے اشتہارات جاری کئے اور بھاری انعام کا بھی اعلان کر دیا تھا۔ 11سال گزرے عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی اور بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی انگاروں پر لوٹ رہی ہیں… والدہ تو اس قدر نحیف و نزار ہیں کہ گھر سے باہر نہیں آ سکتیں اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اپنا سارا لائف کیریئر ختم کر کے اپنی زندگی کا مقصد اپنی بہن کو امریکی قیدسے رہائی دلوانا بنا لیا ہے۔

امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر امریکی حملے کا مقدمہ چلا تو انہیں 86سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ یہاں بھی جیل میں عافیہ صدیقی پر ایسے ایسے انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے کہ انہیں بیان کرنا محال ہے لیکن دین کی محبت سے سرشار عافیہ صدیقی جب بھی عدالت میں پیش ہوئیں وہ باپردہ تھیں اور ان کی آواز میں بلا کی گھن گرج تھی۔ ایک ماں اور دو بیٹیاں گیارہ سال سے امریکہ اور اس کے مظالم کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن چکی ہیں۔ بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کئی سال سے شہر شہر اور بستی بستی قوم اور ملت کو جگانے کیلئے دستک دیتی پھر رہی ہیں۔ والدہ گھر میں بیٹھی آوازہ حق بلند کر رہی ہیں، گیارہ سال گزرے آواز پست نہیں ہو سکی۔ اگرچہ کہ عافیہ صدیقی کو رہائی دلانے کا وعدہ کر کے حکومت پانے والے اب اپنے پائوں سے بندھے اس بوجھ سے آزادی پانے کیلئے سرگرداں ہیں۔ تمام تر کوششوں کے باوجود یہ بوجھ ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔ تاریخ کا باب منتظر ہے کہ امریکی جیل میں قید عافیہ صدیقی کو اب کون رہائی دلا کر اپنا نام محمد بن قاسم اور معتصم باللہ جیسے غیرت مندوں کی فہرست میں لکھواتا ہے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین