ماں اور جدہ کا سرور پیلیس

Zarin Musharraf

Zarin Musharraf

ماں آپ کی ہو میری نواز شریف کی یا پھر جنرل مشرف کی ماں اپنی اولاد کے لئے اس دنیا میں محبوب ترین ہستی ہوتی ہے۔جنہوں نے مائوں کے دکھ دیکھے ہوتے ہیں وہ ان کا مداوا بھی کرتے ہیں کوئی انتقام لے کر کوئی معاف کرکے۔تاج محل آگرہ میں محبوب بیوی کی یادگار ہے اور جوڑے اپنی بیویوں سے محبت کے اظہار کے لئے وہاں جا کر عہد وفا کرتے ہیں۔صہباء مشرف بھی ایک وقت اپنے میاں کے ساتھ گئی تھیں۔یہ تاج محل تو تھا بیوی سے پیار اور اس کا اظہار لیکن ماں سے محبت کی نشانی میرے خیال میں دنیا میں ایک ہی ہے اور وہ ہے لاہور میں شوکت خانم ہسپتال جسے ایک بیٹے نے ماں کو تکلیف میں دیکھ کر عہد کیا کہ ماں کی تکلیف کا ازالہ میں اس کے نام سے ایک مثالی ہسپتال بنا کر کروں گا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ میں جب اپنی والدہ کو کینسر کے مرض میں چیختے چلاتے دیکھتا تھا تو میرا دل کرتا تھا کہ میں اپنی اس ماں کا نام زندہ رکھنے کے لئے ہسپتال بنوائوں اور اللہ نے جب ورلڈ کپ جیتنے کا موقع دیا تو اس وقت جب کپ میرے ہاتھ میں تھا میری ماں میری آنکھوں کے سامنے تھی اور میں ان سے کہہ رہا تھا کہ ماں میں ہسپتال بنا سکتا ہوں۔

جنرل مشرف کی ماں آج کل دبئی کے ہسپتال میں ہیں اور ان کا بیٹا اسلام آباد میں پیشیاں بھگت رہا ہے ۔اور وہ بھی ایک ہسپتال سے جا کر،قوم کے ہزاروں افراد اسے اپنی جلو میں لے کر چلتے ہیں اور سیکڑوں بھاگتے دوڑتے اسے عدالت عالیہ کے سامنے پیش کر کرے واپس لاتے ہیں۔

اسے مکافات عمل کہیں گے یا کچھ اور۔میں نے کالم کی ابتداء میں کہا تھا کی مائیں سب سے پیاری چیز ہوتی ہیں۔ایک ماں کراچی میں بھی رہتی ہے عافیہ کی ماں ،اس کو بھی بیٹی کا درد محسوس ہوتا ہو گا بلکل بیگم زریں کی طرح،اور ایک ماں اور بھی ہے جو گجرانوالہ کے بڑے قبرستان میں مدفون ہے۔یہ میری ماں ہے۔

مارچ ٢٠٠٢ میں جدہ میں میاں نواز شریف کے ساتھیوں کے خلاف جنرل مشرف کے کہنے پر اس وقت کے ایک لمبی گردن والے جرنیل نے جو سفیر پاکستان تھا اس نے آپریشن کیا،شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا دار جو اپنے ہی بیٹوں کو اغیار کے حوالے کرتے رہے جنرل مشرف امریکیوں کے پاس اور یہ دراز سریے والی گردن والا اپنے محل تعیانتی پر ،اور لوگ پکڑے گئے میں نے ان کے بارے میں لکھا اور مزاحمت کی تو مجھے بھی دھر لیا گیا۔ ٧١ دنوں کی بندش نے میری ماں کو بھی اذیت پہنچائی ۔جب میں ان سے ملا تو ماں جی ٹوٹ چکی تھیں۔اجڑے پردیسی بیٹے کو دیکھ کر وہ برین ہیمرج کا شکار ہو گئیں۔انہیں نلکیاں لگ گئیں ہسپتال کے بستر پر لیٹی ماں مجھے اس لئے یاد آئیں کہ آج جنرل مشرف کی ماں بستر پر اسی طرح لیٹی ہے جس طرح راقم کی والدہ اسلام آباد کے پمز میں لیٹی ہوئی تھیں۔میری ماں نے بھی میری محدود بادشاہی دیکھی تھی اور جنرل کی ماں نے تو بھرپور زندگی گزاری ہے وہ تو سفارت خانوں کی پارٹیوں میں عمدہ رقص بھی کیا کرتی تھیں۔ میری بے جی کہا کرتی تھیں جب سے ہوش سنبھالا ہے تہجد قضاء نہیں ہوئی۔مائیں دنیا کی عظیم ترین ہستیاں ہوتی ہیں۔میری ماں کئی ہفتوں تک بے ہوش رہیں ہوش میں آتیں تو عجیب و غریب باتیں کرتیں اور پھر ایک روز وہ اس دنیا سے سدھار گئیں۔ لوگ جمہوریت کے لئے کیا کچھ نہیں قربان کرتے۔

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

کسی نے ماں کی یاد میں مسجدیں بنا رکھی ہیں کوئی ہسپتال، مگر ایک بات ہم ظالم بھول جاتے ہیں کہ جب ہم کسی کے ساتھ ظلم کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ان کی مائیں بھی پیس کے رکھ دیتے ہیں۔ اقتتدار کے ایوانوں میں مزے لوٹنے والی مائیں،اپنے بچوں کے اچھے دنوں میں پھلتا پھولتا دیکھتی مائیں بھی عذاب جھیلتی ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے جب مشرف اقتتدار میں تھے تو ہم ایوان صدر کے باہر آمنہ مسعود جنجوعہ کے میاں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کی بوڑھی ماں کا واسطہ دیا کرتے تھے۔

اس وقت پتھر کی اس عمارت میں بیٹھے مشرف کو یہ آواز سنائی نہیں دیتی تھی آج ہم ان کی بیمار والدہ کو دیکھ کر مطالبہ دہراتے ہیں۔ پاکستان میں کون سی خالص چیز ملتی ہے جمہوریت کے تقاضوں کو ناخالص بنا کر ان سے چشم پوشی بھی کی جا سکتی ہے اور انہیں کسی طیارے پر چڑھا کر قوم جو ایک اہیجان میں مبتلا ہے اس سے اسے نکالا جائے۔آج شہباز شرف کی بیماری کا بھی ذکر ہوا ہے اور حسن نواز کا بھی چلئے اسے ہی مد نظر رکھ کر جنرل مشرف کو باہر بھیج دیا جائے۔

قوم کو کبھی کبھی ڈرایا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ کچھ ہوا تو فوج خاموش نہیں بیٹھے گی۔ہم اس موضوع کو نہیں چھیڑتے صرف کہنا یہ ہے کہ اب پاکستان کو اور بڑے چیلینجز کا سامنا ہے۔ مشرف کو یہاں سے بھیج دینا ہی بہتر ہو گا۔

مائیں دکھ جھیلنے کے لئے نہیں بچے پیدا کرتیں۔ ہمیں پورا احساس ہے کہ ماں سے بچھڑنا اور اس حالت میں کہ بچے جیل میں ہوں اذیت ناک ہوتا ہے۔ جنرل مشرف نے بہت سی مائوں کو تڑپا تڑپا کے مارا ہے۔لال مسجد میں قرآن پڑھنے والوں کو،مسنگ پرسنز کے والدین کو، عافیہ اور مسعود کی ماں کو۔مگر کسی لمحے کسی موڑ پر کسی وقت کسی کو معاف کرنا ہو گا۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ جنرل مشرف کو معاف کر دیا جائے اور انہیں ملک سے باہر بھیج دیا جائے۔ویسے بھی جدہ کا سرور پیلیس آج کل خالی ہے۔

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر: انجینئر افتخار چودھری