آئین سے غداری کے الزام میں سابق حکمران پرویز مشرف کے خلاف فرد جرم عائد ہونے کے بعد سیاسی لوگوں کے روئیے پر پاکستانی عوام میں یہ بات ریربحث ہے کہ حکومت طالبان سے مذاکرات اور بعض دیگر اہم امور سے توجہ ہٹانے کے لئے بھی اس مقدمہ کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔ تا کہ حسب ضرورت اس معاملہ کو لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ دوسری طرف طویل عرصہ تک کھینچا تانی کے بعد خصوصی عدالت میں آئین سے غداری کے الزام میں سابق حکمران پرویز مشرف کے خلاف فرد جرم عائد کر دی گئی ہے ۔ ملزم نے خود پر عائد کئے جانے والے جرائم سے انکار کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ انہوں نے تمام اقدام ملک کی بہتری کے لئے کئے تھے۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ مقدمہ مستقبل قریب میں کیا رخ اختیار کرے گا۔
ملک میں اس مقدمہ کی حمایت اور مخالفت میں دلائل دینے والوں اور مہم سازی کرنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔ میاں نواز شریف کی حکومت نے بھی مخصوص سیاسی ضرورتوں کے تحت بہت سوچ سمجھ کر جون 2013ء میں راولپنڈی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فساد کے عین بیچ میں یہ مقدمہ چلانے کا اعلان کیا تھا۔ اس مقصد کے لئے سپریم کورٹ کے تعاون سے تین ججوں پر مشتمل ایک خصوصی عدالت تشکیل دی گئی ہے اور ملک کے ممتاز وکیل اکرم شیخ کو خصوصی پراسیکیوٹر مقرر کیا گیا ہے۔
ملک میں ایک طاقتور گروہ جن میں بعض سیاسی پارٹیوں کے لیڈر شامل ہیں مسلسل اس مقدمہ کی مخالفت کر رہا ہے ۔ میڈیا کا ایک سیکشن بھی مقدمہ کے خلاف اور کسی حد تک سابق حکمران کی حمایت میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے ہمہ تن مصروف عمل ہے ۔ ان لوگوں کا مؤقف ہے کہ یہ مقدمہ قانون شکنی کی بنیاد پر نہیں بلکہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور وزیراعظم میاں نواز شریف کی پرویز مشرف کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے قائم ہوا ہے ۔ حالانکہ حکومت نے سپریم کورٹ کی طرف سے سابق فوجی حکمران پر غداری کا مقدمہ چلانے کے بارے میں حکم کے بعد بہت غور و خوض کے بعد یہ اعلان کیا تھا۔
میاں نواز شریف کی حکومت نے یہ اہتمام بھی کیا تھا کہ خصوصی عدالت کے قیام کے سلسلہ میں نہایت احتیاط سے کام لیا جائے ۔ حکومت نے سپریم کورٹ کو خصوصی عدالت کے لئے نام تجویز کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس وقت افتخار چوہدری سپریم کورٹ کے سربراہ تھے ۔ انہوں نے بھی اس معاملہ پر احتیاط سے کام لیتے ہوئے پانچوں صوبائی ہائی کورٹس سے ایک ایک جج کا نام طلب کیا تھا اور یہ پانچوں نام حکومت کو بھجوا دئیے تھے ۔ حکومت نے ان میں سے تین ججوں پر مشتمل ایک خصوصی عدالت قائم کر دی تھی۔ پرویز مشرف کے وکلاء کی طرف سے اس عدالت کے قیام اور اختیار کو چلینج کیا گیا تھا۔ اس قسم کی تمام درخواستیں خصوصی عدالت مسترد کر چکی ہے ۔ مشرف کے وکلاء نے سپریم کورٹ سے بھی مداخلت کی اپیل کی تھی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ بہرحال یہ معاملہ اپنی جگہ تنازعہ کا سبب رہے گا کہ ملک کے کسی قانون کی مخالفت کے الزام میں مروج عدالتی طریقہ کار کی بجائے خصوصی عدالت بنانے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ اس مقدمہ کا جو بھی فیصلہ ہو ، عدالت کی تشکیل اور دائرہ اختیار کے بارے میں سوالات اٹھائے جاتے رہیں گے۔
گزشتہ دو ماہ کے دوران خصوصی عدالت کے ججوں اور پرویز مشرف کے وکیلوں کے درمیان اس سوال پر تکرار ہوتی رہی ہے کہ پرویز مشرف کا عدالت میں پیش ہونا کس قدر ضروری ہے ۔ پرویز مشرف گرفتاری سے بچنے کے لئے آرمی کے امراض قلب کے اسپتال میں داخل ہو چکے ہیں اور معالجین انہیں بیرون ملک علاج کا مشورہ بھی دے چکے ہیں۔ یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ پرویز مشرف کو انتہائی احتیاط کے وارڈ میں داخل کر دیا گیا ہے۔ اور وہ طبی بنیاد پر عدالت میں پیش نہیں ہوں گے ۔ تاہم انہوں نے عدالتی حکم کے مطابق خصوصی عدالت میں حاضر ہونے کا فیصلہ کیا اور بالآخر ان پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔ اس موقع پر ان کی طرف سے ان کے نئے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دئیے ۔ پرویز مشرف کے دیگر وکلاء نے عدالتی رویہ کے خلاف بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کا پس منظر 27 مارچ کا وہ سانحہ تھا جس میں خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب وکلائے صفائی کے رویہ سے ناراض ہو کر عدالت سے چلے گئے تھے اور یہ خبر عام ہو گئی تھی کہ انہوں نے خصوصی عدالت سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ بعد میں تحریری حکم میں واضح کیا گیا تھا کہ جسٹس فیصل عرب عدالت سے علیحدہ نہیں ہونگے۔
Ahmed Raza kasuri
پرویز مشرف کے نمائندے اور ان کی پارٹی کے رہنما رضا قصوری، جو ان کے وکلاء کی ٹیم میں بھی شامل ہیں ، جسٹس فیصل عرب کے رویہ کو ناقابل قبول قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے زبانی طور پر عدالت سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا اس لئے وہ بعد میں اس فیصلہ کو تحریری حکم کے ذریعے واپس لینے کے مجاز نہیں ہیں۔ اس طرح تکنیکی لحاظ سے یہ عدالت تحلیل ہو چکی ہے اور اسے اس مقدمہ کی سماعت کرنے کا کسی طرح کا اختیار نہیں ہے۔
اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اس مقدمہ کے قانونی پہلووں سے قطع نظر یہ مقدمہ دراصل سیاسی صورت اختیار کر چکا ہے اور فریقین سیاسی ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستانی عوام کی اکثریت ضرور یہ خواہش رکھتی ہے کہ ایک فوجی سربراہ کے خلاف آئین توڑنے کے اقدامات پر انہیں جوابدہ کیا جائے لیکن اس مقدمہ نے جس طرح ایک سرکس کی حیثیت اختیار کر لی ہے وہ اکثر لوگوں کے لئے پریشان کن ہے ۔ پرویز مشرف کے حامی اس مقدمہ کو فوج کی توہین قرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ طاقتور غیر ملکی طاقتیں پرویز مشرف کو بچانا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک سابق فوجی سربراہ کو غداری کے الزام میں سزا دینے سے فوج کے مورال پر اثر مرتب ہو گا۔ عدالتی کارروائی میں پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے نہایت پروفیشنل مہارت سے وکیل صفائی اور ملزم کے اس مؤقف کو مسترد کیا ہے کہ یہ مقدمہ پرویز مشرف کی ملک سے وفاداری سے متعلق ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس مقدمہ میں پرویز مشرف پر آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقدامات کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس لئے یہ معاملہ آئین شکنی سے متعلق ہے۔ ملک میں اس سے قبل آئین کی شق 6 کے تحت مقدمہ قائم نہیں ہؤا۔ اس شق کے تحت جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔
عدالتیں اس سے قبل پرویز مشرف کی طرف سے اپنی بیمار والدہ کی عیادت کے لئے بیرون ملک جانے یا خود اپنا علاج اپنی مرضی کے امریکی ہسپتال میں کروانے کی درخواست مسترد کر چکی ہیں۔ تاہم بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک بار پھر عدالت سے پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی درخواست دائر کی ہے۔
سابق فوجی حکمران کی ضعیف والدہ شدید علیل ہیں۔انہیں انتہائی تشویشناک حالت میں شارجہ کے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں بھی داخل کیا گیا ہے۔ اس لئے فروغ نسیم کا یہ مؤقف وزنی ہے کہ مقدمہ کی حیثیت اور الزام کی سنگینی کے باوجود انہیں اپنی والدہ سے ملنے کا موقع ملنا چاہئے۔ عدالت نے اس سوال پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔ اس سوال پر کسی قسم کی رعایت ملنے کی صورت میں اگر پرویز مشرف ملک سے باہر چلے جاتے ہیں تو یہ فیصلہ عدالتی ہونے کے باوجود میاں نواز شریف کی حکومت کے لئے سیاسی شکست کے مترادف ہو گا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت طالبان سے مذاکرات اور بعض دیگر اہم امور سے توجہ ہٹانے کے لئے بھی اس مقدمہ کو جاری رکھنا چاہتی ہے ۔ تا کہ حسب ضرورت اس معاملہ کو لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
اس طرح پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ صرف آئینی تشریح کے حوالے سے ہی نہیں سیاسی نقطہ نظر سے بھی پیچیدہ اور مشکل ہو چکا ہے ۔ حیرت کی بات ہے کہ عدالتیں بھی اس معاملہ میں نزاکتوں کو بھانپنے اور میانہ روی کا کوئی مناسب راستہ نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ حالانکہ گزشتہ چند ماہ میں اس سلسلہ میں کئی مواقع سامنے آئے تھے۔ اس وقت پرویز مشرف خود پر قائم تمام مقدمات میں ضمانت پر رہا ہیں اور وہ باقاعدہ زیر حراست نہیں ہیں۔ ان پر کسی مقدمہ کی سماعت یا اس پر فیصلہ کے لئے انہیں ملک کے اندر پابند رکھنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف سارے مقدمات قانون اور طریقہ کار کے مطابق چلائے جا سکتے ہیں۔ یہ سارے معاملات اصولی ہیں۔ اس بات پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ان مقدمات کے نتیجے میں یہ اصول طے ہو جائے کہ ملک میں قانون شکنی کے مرتکب ہر شخص کو سزا ملے گی تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ تاہم پرویز مشرف کی ملک میں موجودگی میں یہ کامیابی حاصل کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ بہتر ہو گا کہ عدالت پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے تا کہ ان کی سکیورٹی اور سیاسی انتقام سے متعلق افواہ سازی کا سلسلہ بند ہو سکے ۔ شاید یہی راستہ اس ملک کے حکمرانوں ، فوج اور نظام کی عزت بچانے اور اسے محفوظ رکھنے کے لئے بہتر بھی ہو گا۔