کہا جاتا ہے کہ کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس میں فحاشی کو عام کر دو۔ ذہین ترین لوگوں کی سر زمین پاکستان کی نوجوان نسل کو تباہ کرنے کے لئے بھی اغیار نے یہی کیا۔ ہماری نوجوان نسل نے تعمیری سوچ اور مثبت سرگرمیوں کو خیر باد کہہ کر تعیشات کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں دیگر ترقی پزیر ممالک خود کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے کے لئے دن رات مصروف عمل ہیںوہیں ارض پاک ترقی پزیر سے ترقی یافتہ ہونے کی بجائے مسلسل رو بہ زوال ہے۔
پستیوں کی جانب تیزی سے بڑھتے اس معاشرے میں کہیں انٹرنیٹ کیفے کے نام پر فحش فلمیں دکھا کر نوجوان نسل کے جذبات کو بھڑکایا جا رہا ہے توکہیں تو آئس کریم پارلرز کے نام پر فحاشی کے اڈے کھلے ہوئے ہیں۔ رہی سہی کسر مخلوط نظام تعلیم نے پوری کر دی ہے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے آزادانہ میل جول نے بہت سی خرابات کو جنم دیا ہے۔ رسمی بات چیت دھیرے دھیرے لمبی ملاقاتوں اور پھر جنسی تعلق میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کی بنیاد لاالہ اللہ پر رکھی گئی تھی، میں بدقسمتی سے جنسی کھیل اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ شادی سے پہلے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جسمانی رفاقت میں اس قدر قریب ہو جاتے ہیں کہ ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں اور جب ہوش آتا ہے تو صرف اسقاط حمل کا رستہ کھلا ملتا ہے۔ اور یہ بات باعث شرم بھی اور باعث فکر بھی کہ مختلف ناموں اور مختلف صورتوں میں اسقاط حمل کے بے شمار ادارے قائم ہیں اور دھڑلے سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیںاور اسقاط حمل سے جو زندگی قتل کر دی جاتی ہے وہ لوتھڑوں کی شکل میں خونی تجارت بن جاتی ہے۔
بڑے بڑے ہسپتال شوہر کانام پوچھے بغیر ، نکاح نامہ طلب کئے بغیر یا شوہر کا فرضی نام لکھ کر انتہائی کم پیسوں میں مختلف طریقوں سے ابارشن کر دیا جاتا ہے۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ وائبریٹر کی مدد سے ماں کے رحم میں پلنے والے بچے کا قتل کر دیا جاتا ہے۔ا س عمل سے ماں کی زندگی کو بھی خطرہ ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ کے لئے بانجھ بھی ہو سکتی ہے۔
Abortion
میڈیا رپورٹس کے مطابق تین سے نو ماہ کا نومولود بچہ جو عمومی طور پر ابھی لوتھڑہ ہی ہوتا ہے، اینٹی ایجنگ مصنوعات میں استعمال ہوتا ہے اس لئے یہ بڑی بڑی کاسمیٹکس کمپنیوں کی مانگ ہے اور یہ بین الاقوامی کمپنیاں غیر ملکی این جی اوز کی پاکستان میں قائم شاخوں کے ذریعے یہ نومولود بچے منہ مانگے پیسے دے کر خرید لیتی ہیں۔ایسے لوگوں کی سوچ پر میں کیوں نہ ماتم کروں جنہوں نے جلدی مسائل کا حل اس سے نکالنا شروع کر دیا۔
ایسی کمپنیاں جن کی کاسمیٹکس پراڈکٹس میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے ان کے لئے کوئی واضح قانون موجود نہیں۔جبکہ پاکستان پینل کورٹ کے مطابق اسقاط حمل کے جرم کے مرتکب ڈاکٹر کو تین سال قید اور ماں کو سات سال قید جیسی سزائیں دی جائیں گی۔ مگر افسوس دیگر بہت سے جرائم کی طرح اسقاط حمل بھی بغیر روک ٹوک اور ڈر کے سرعام کیا جا رہا ہے اور قانون موجود ہونے کے باوجود اس پر عملدرآمد کو یقینی نہیں بنایا جا سکا اور شاید فحاشی و بے حیائی کو عام کر کے اغیار اپنی سازشوں میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
لیکن یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس سب کے پیچھے جہاں بیرونی سازشیں کارفرما ہیں وہیں اس میں کچھ حصہ ہمارا بھی ہے۔ مائنڈ سائنسزکے ماہر ڈاکٹر مغیث کہتے ہیں کہ نوجوان نسل میں منفی سرگرمیوں اور جنسی تعلقات کی جانب رغبت کی بڑی وجہ ماحول میں موجود گھٹن ہے۔ ماضی میں نوجوانوں کو کھیلوں اور دیگر مثبت سہولیات کے لئے جو سہولیات میسر تھیں، وہ اب موجود نہیں۔ جب ایک بچہ جانتا ہے کہ اعلی نمبروں سے پاس ہونے کے باوجود اسے نوکری نہیں ملے گی تو یقینا وہ پڑھائی میں محنت نہیں کرے گا اور اس کا رجحان منفی سرگرمیوں کی طرف بڑھتا چلا جائے گا۔
یہاں یقینا کچھ ذمہ داری ریاست اور اس کے اداروں کی بھی بنتی ہے کہ نوجوان نسل کو تعلیم، صحت اور تفریح کے مواقع اور وسائل کی فراہمی کو یقینی بنانے اور بے روزگاری کو ختم کر کے نوکریوں کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مثبت سرگرمیوں کے فروغ کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں۔ اور فحاشی کے پھیلنے میں جو عناصر کارفرما ہیں ، ان کے تدارک کے لئے ہنگامی بنیادوں کے لئے کام کیا جائے۔ ورنہ معاشرہ جس بے راہ روی کا شکار ہو چکا ہے اس میں زلزلے بھی آئیں گے، سیلاب بھی آئیں گے، آسمانی بجلی بھی گرے گی اور تھر کے قحط کی صورت میں بھی آفات نازل کی جاتی رہیں گی۔
Tajammal Mehmood Janjua
تحریر: تجمل محمود جنجوعہ tmjanjua.din@gmail.com 0301-3920428