میں سو کر اٹھا محسوس ہوا گھر والوں کی عجب کیفیت ہے چول ہے میں دھواں ہے نہ ناشتے کی کوئی تیاری۔۔ میں نے پوچھا اماں!ناشتے میں کیا ہے؟۔۔انہوں نے کوئی جواب نہ دیا مجھے لگا جیسے اماں کی آنکھوںمیں آنسو ہوں۔ والد صاحب کی طرف دیکھا افسردہ افسردہ، غمگین، دل گرفتہ۔۔ادھر ادھر نظر دوڑائی تو بڑے بھائی ریاض ایک کونے میں کھڑے رو رہے تھے میںنے ان کا ہاتھ تھام کر دریافت کیاآپ کیوں رورہے ہیں ؟ انہوں نے کوئی جواب نہ دیا البتہ ان کے رونے کی آواز مزید بلند ہو گئی چار پائی پر بیٹھے بھائی نسیم کی بھی یہی حالت تھی۔۔
دل میں سوچا الہی کیا افتاد آن پڑی ہے کہ ہر کوئی پریشان پریشان ہے بتاتا بھی کچھ نہیں شاید کوئی رشتہ دار عزیز وفات پا گیا ہے منہ ہاتھ دھو کر گھرسے باہر نکلا تو یوں لگا میاں چنوں کا ہر شہری سہما سہما، ڈرا ڈرا اور سوگوارہے کچھ آگے بڑھا تو ایک خبطی قسم کا بوڑھا ننگی گالیاں دے رہا تھاکبھی کبھی وہ جیوے جیوے کا نعرہ لگاتا پھر گالیاں دینے میں مصروف ہو جاتا درجنوں بچے خبطی کے ارد گرد جمع تھے شاید ان کی دانست میں کوئی تماشاہورہا تھااسی اثناء میں ایک واقف کار لڑکے نے میرا ہاتھ پکڑا اور کھینچتاہوا ایک طرف لے گیا موڑ مڑتے ہی ایک عجوم پر نظر پڑی ان میں بچوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی ان کے ارد گرد جمع لوگ کچھ کھا رہے تھے ہم بھی آہستہ آہستہ ان کے پاس پہنچ گئے معلوم ہوایہاں حلوہ بانٹا جارہا ہے سوچا شاید کوئی نذر نیاز ہے یا پھر ختم شریف اسی دوران سپید دودھ سے بالوں والا ایک بابا ( جس کی صورت فرشتے جیسی تھی) آکر ہمارے قریب آکھڑا ہواوہ بلند آواز میں چیخ چیخ کر کہنے لگاشرم کرو! حیا کرو! موت پر اتنا جشن۔۔۔ دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا
وہاں مجھے علم ہوا کہ آج صبح معزول وزیر ِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیدی گئی اسی وجہ سے میرے گھر کی فضا میں یاسیت رچی ہوئی تھی شہر کے بیشتر لوگ سوگوار تھے اور یہاں کچھ لوگ ان کی موت پر حلوے بانٹ رہے تھے۔۔ایک مقبول ترین قومی رہنما کی اس انداز میں موت۔۔ایک سانحہ سے کم نہیں پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑی طلسماتی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ حضرت قائد ِ اعظم کے بعد سب سے بڑے لیڈر بن کر ابھرے۔” آیا اور چھا گیا ”کا مقولہ صحیح معنوں پر ذوالفقار علی بھٹو پر صادق آتا ہے۔
ان کی آمدسے قبل سیاست جاگیرداروں، حکومتی منظور ِ نظر لوگوں۔۔اور۔۔وڈیروں کے گھر کی لونڈی سمجھی جاتی تھی وہ قومی امور کے فیصلے اپنے ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر کیا کرتے تھے اور کسی کو دم مارنے کی بھی تاب نہ تھی ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کو عوامی رنگ دیا انہوںنے سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر ہوٹلوں، تھروں، ٹی سٹالوں اور بار بروں کے حمام میں لا پھینکااور پاکستان کی تاریخ کے طاقتور ترین سیاستدان بن گئے انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنائی جس نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔۔بڑے بڑے بھاری بھر کم سیاستدانوں کے مقابلے پر PPP کے امیدوار ایسے تھے جن کو محلے میں بھی کوئی نہیں جانتا تھا بلکہ لوگ انہیں مذاق کرتے تھے نتیجہ آیا تو بڑے بڑے برج الٹ گئے یوں سمجھئے سیاسی انقلاب آ گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی طلسماتی شخصیت کی بدولت پیپلزپارٹی کے غیر معروف امیدواروں نے مخالفین کی ضمانتیں ضبط کروادیں 1977ء کے الیکشن میں امیدواروں کی شخصیت، سیاسی جدوجہد، خاندانی پس منظر سب مائنس ہو گئے بھٹوکا نام جس نام کے ساتھ نتھی ہو گیا معتبر ہو گیاوہ دنیا کے پہلے سول چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر بھی رہے۔۔۔صدر ِ پاکستان بھی اور وزیر ِ اعظم کے عہدے پر فائزرہے ان کے دورحکومت میں طاقتور وزیرِ اعظم کاتصور ابھرا جس وقت ذوالفقار علی بھٹو کو حکومت ملی قوم سقوط ِ ڈھاکہ کے باعث شکست خوردہ تھی۔زخم ہرے تھے دور دور تک ان کے پایہ کا کوئی لیڈر نہ تھااس صورت ِ حال نے انہیں ایک مطع العنان حکمران بنا دیا پارٹی کے دیگر رہنمائوںکے لئے اختلاف رائے بھی جرم بن گیا خود پیپلزپارٹی کے لوگ کہنے لگے بھٹوکی شخصیت تضادات کا مجموعہ ہے۔شاید اسی لئے متعدد قریبی ساتھی معراج محمد خان، جے اے رحیم، مختارراناوغیرہ۔۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور ِ حکومت میں ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔۔۔
Pakistan
ان خوبیوں یا خامیوں کے باوجود ان کے پاکستان پر بہت سے احسانات ہیں 1977ء کا متفقہ آئین ذوالفقار علی بھٹو کا ہی کارنامہ ہے،اسلامی سربراہی کانفرنس ،پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز،اسلامک بلاک کی تشکیل، تیل کو ہتھیارکے طور پر استعمال کرنے کی سوچ، قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا اور ایک لاکھ پاکستانی جنگی قیدیوں کی رہائی ۔۔۔ان کی بہترین کاوشیں قراردی جا سکتی ہیں۔ یہ بات اکثر سننے میں آ تی رہی کہ ذوالفقار علی بھٹو کی قسمت کا فیصلہ اسی روز ہوگیا تھا جس روز پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی گئی تھی بھٹو نے کہا تھاہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹمی پروگرام ہر قیمت پر جاری رہے گا اسلامی بلاک کے ایک محرک شاہ فیصل کو ایک سازش کے تحت بھتیجے کے ہاتھوں شہید کروا دیا گیادوسرے محرک کو منظر سے ہٹانے کیلئے پھانسی دیدی گئی پیپلزپارٹی کے رہنماایک عرصہ سے یہ بھی کہہ رہے ہیں بھٹوکی پھانسی عدالتی قتل ہے۔
بہرحال اس بات میں سچائی ہے یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج سے 35 سال قبل اس لیڈر کو موت دیدی گئی۔۔جو غریبوں کی بات کرتا تھا۔ جس نے پاکستان کی سیاست اور سیاست کاانداز بدل کر رکھ دیا۔۔جس تمام مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا خواب دیکھا۔۔۔جو دل سے چاہتا تھا اسلامک بلاک کی کرنسی ،دفاع اور تجارت مشترکہ ہو۔۔۔ لوگ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کہ بھٹو اتنا بڑا لیڈر تھا کہ اس کی شخصیت کے پاکستانی سیاست پر اب تلک اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔۔اس کی حمایت اور مخالفت میں اب بھی ووٹ ملتے ہیں حضرت قائد ِ اعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کانام آج بھی معتبر ہے وہ اب اس دنیا میں نہیں لیکن وہ لاکھوں،کروڑوں لوگوں کے دلوںمیں آج بھی زندہ ہیں غالب خیال ہے کہ قیامت تک زندہ رہیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹونے پاکستان، جمہوریت اور سیاست کیلئے اپنی جان قربان کردی لیکن اصولوںپر سمجھوتہ کرنا گوارا نہ کیا۔یہ بھی کہا جاتاہے وہ پاکستان کے ایک متنازع کردار تھے۔۔۔ان پر پاکستان توڑنے کاالزام بھی لگایا جاتاہے ۔۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے ذوالفقار علی بھٹوکا کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے بغیر صنعتیں قومی تحویل میں لینا ملکی معیشت،تجارت اور کاروبار کو بے انتہا نقصان کا موجب بنا اس کے بعدکاروباری لوگوںنے کسی حکومت پر اعتبار کرنا گناہ سمجھ لیاان ساری باتوںسے صرف ِ نظر پیپلزپارٹی کے بانی اپنے مخصوص نظریات، غریبوں سے محبت اور اپنی طلسماتی شخصیت کے باعث ہمیشہ زندہ رہیںگے۔ جنرل ضیاء الحق سمیت ان کے کٹر مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ لاکھ کوششوں کے باوجود پیپلزپارٹی ختم کیا جا سکا نہ بھٹو لوگوںکے دلوںسے کھرچے جا سکے۔ جب بھی4اپریل آتا ہے لگتا ہے سپید دودھ سے بالوں والا اور فرشتے کی سی صورت والا ایک بابا
میرے کان میں سرگوشی کرتا ہے دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا
اور میں تائید میں سر ہلا کر رہ جاتا ہوں کہ واقعی زندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہے او ربھٹو اپنی تربت سے فکری اندز میں آج بھی اپنی برسی کے موقعہ پر دنیا کے طول و عرض سے آئے لوگوں سے مخاطب تو ہوتے ہوں گے۔
کون کہتاہے، موت آئی تو مر جائوں گا میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا