کیا سچ پر جھوٹ کی ملمع کا ری کر کے صحافت کا قد اونچا کیا جا سکتا ہے ایک عر صہ سے صحافت میں یہ روش بنتی جارہی ہے کہ خبریت میں حقا ئق کو مسخ کر کے سنسنی خیزی کے ذریعے ہم اپنا قد اونچا کر نے میں لگے ہو ئے ہیں جو ایک انتہا ئی خطرنا ک صحا فتی عمل ہے جس سے مظلو م کا کردار پس منظر میں جا رہا ہے ؟ یہ صحافت نہیں خباثت ہے کہ آپ انصاف کی حرمت کو قدم قدم پر جھوٹ کے ذریعے قتل کرنے کے درپے ہو جائیں جنوبی پنجاب میں حسینہ مائی کیس صحافتی بد دیانتی کی بد ترین مثال یہ ہے کثیر رقم اینٹھنے کے چکر میں فرض پس منظر میں دم توڑتا جا رہاہے اور سب سے پہلے متعلقہ نیوز چینل پر فوٹیج چلوانے کی دوڑ میں سچائی کی تحقیق بھی گوارہ نہیں کی جاتی ، نام نہادالیکٹرانک میڈیا کے اداکار سچائی کے پس منظر کواس طرح قتل نہیں کرسکتے اور پولیس کے ایماندار ،فرض شناس کرداروں کو جو اپنی تحقیق سے سچ کا کھوج لگاتے ہیں اُن پر ”yellow journlism”کا دبائو ڈال کر انصاف کے قتل پر نہیں اُکسایا جا سکتا رائو فاروق خان کا ماضی گواہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے پیشے کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی اُن کا کردار پولیس میں ہمیشہ پروفیشنل رہا ہے۔
صحافت کے نام پر چند لوگ جوصحافت کے اُجلے دامن پر دھبہ ہیں وہ پری پلان منصوبہ سے حسینہ مائی کو اس نہج پر لے آئے کہ پنجرے کا انتظام بھی اُنہوں نے خود کیا اور اُسے زنجیریں پہنانے کی ہدایت بھی ان صحافی ہدایت کاروں نے خود دی ،کیا 14 جون 2013 کی اُس کہانی کی کوئی حقیقت نہیں جب حسینہ مائی نے والدین کی معاشرتی حیثیت پر پائوں رکھ کر گھر سے بھاگ کر رحیم بخش سے نکاح کیا تب ہمارے یہ صحافتی اداکار کہاں تھے ؟ اور یہی نہیں اُس عدالت کی کوئی حُرمت نہیں 20 جولائی 2013 کواپنے والد منظور حسین لشاری کے خلاف جس میں موصوفہ نے رٹ دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ”18 جولائی کو میرا والد منظور حسین لاشاری ولد اللہ بخش لاشاری ،نتھو ولد اللہ ڈیوایا حجانہ ،حفیظ عرف حفیظہ ولد رشید احمد منظور حسین کھوجہ ڈنڈوں ، سوٹوں سے مسلح میرے گھر داخل ہوئے اور دھمکی دی کہ خاوند رحیم بخش سے طلاق حاصل کرو وگرنہ ہم تمہیں اور تمہارے خاوند کو جان سے مار دیں گے اُس وقت میرا خاوند محنت مزدوری کیلئے شہر سے باہر گیا ہوا تھا شور واویلہ پر شیر زمان اور محمد ارشاد نے جان بچائی ”اہل علاقہ نے ایک پنچایت میں اُن کی صلح صفائی کی کوشش شروع کر دی اور آخر کار اُن میں طے پاگیا۔
رحیم بخش نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اب بطور صلح دو لاکھ روپے حسینہ کے والدین کو ادا کرے رحیم بخش کی مالی حیثیت اس شرط کی متحمل نہ ہوسکی اور وہ شادی جس میں تارے توڑ لانے کے وعدے وعید ہوئے گھر میں معمولی باتوں سے طول پکڑنے والی جنگ حسینہ مائی کو قطعہ تعلق کی حد تک لے گئی کیا حسینہ مائی کے اس اقدام کو بھلایا جاسکتا ہے کہ دفعہ64کے بیانات دیکر ماں باپ کے حق ملکیت پراُس نے لکیر کھینچ دی وہ عورت جو ایک برس تک ایک پسندیدہ شخص کی منکوحہ رہی اور اُس کے بطن سے ایک بچی نے بھی جنم لیا آج پھر کسی اور رحیم بخش کی تلاش میں ہے کہ محبوب کے ملن کے تسلسل سے اُس کا جی بھر گیا لیکن میڈیا کے اداکاروں کیلئے جنہوں نے الیکٹرانک میڈیا پر اپنی زرد صحافت کا پیٹ بھرنے کیلئے فلمیں چلوادیں کیلئے حسینہ مائی سونے کی چڑیا ثابت ہوئی۔
Shahbaz Sharif
وزیر اعلیٰ پنجاب نے ان فلموں پر سو موٹو ایکشن لیا اور جب حقائق ننگے ہوں گے تو کیا صحافت ایسے واقعات کے بعد کسی مظلوم کی آواز بن پائے گی ؟اورایسے ڈراموں ،فراڈز اور جھوٹ کے بعد کیا صحافت کا قد بڑھے گا ؟کسی بھی فرض شناس ،ایماندار پولیس اہلکار کی نظر میں مظلوم اور ظالم کی حیثیت کسی سچی خبر کے بعد بھی اپنی بقا کو برقرار رکھ سکے گی یقینا ایماندر ،فرض شناس پولیس آفیسر حقائق کی جانچ پڑتال کے حقیقت کو پالے گا لیکن ایسی خبروں کے بعد ابہام کی راکھ سے سچ کو چھاننے کیلئے وقت لگے گا اور مظلوم بروقت انصاف سے دور ہوجائے گا۔
نام نہاد این جی اوز اور نام نہاد صحافیوں کی نظروں میں گھر سے بھاگنے والی کسی حرافہ کی کوئی عزت ہوتی ہوگی لیکن ہمارا معاشرہ اس روشن خیالی کو قبول نہیں کرتا اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ حسینہ مائی نے اپنے ماں باپ کو رحیم بخش سے نکاح کرنے کے بعد عدالتوں میں جس طرح ذلیل کیا وہ ایک الگ کہانی ہے ہمار ے معاشرے میں ہمیشہ ماں باپ کی یہ خواہش رہی ہے۔
اُن کی بیٹی کسی کے ساتھ بھاگ جانے کے باوجود اپنے اصل کی طرف لوٹ آئے لیکن جب سر پر محبوب کا تصور اور ملن سوار ہو تو ماں باپ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی کیا صحافت کا ضمیر چند ٹکوں کی خاطر صحافت میں گھسی یہ کالی بھیڑیں بیچتی رہیں گی کل تک جو آڑھت کے کاروبار میں کسانوں کو لوٹتے رہے اور میرے ایک دوست کے پاس اُن نام نہاد صحافیوں کے جعلی چیک بھی پڑے ہیں اور صحافت کوئی آڑھت کی دکان نہیں ضلع لیہ کے اُن باضمیر لوگوں کو ان کالی بھیڑوں کے خلاف نکلنا ہو گا ورنہ بلیک میلنگ کے گند سے آلودہ ہا تھ کسی روز آپ کے گریبانوں تک بھی پہنچیں گے سچ کو جب تک جھوٹ کے پردوں میں چھپایا جاتا رہے گا مظلوم انصاف سے محروم رہے گا۔