آج احمد کے بڑے بھائی حامد کی شادی تھی۔ احمد اپنے بھائی کی شادی پربہت خوش تھا اور اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر پروگرام بنا رکھا تھاکہ آج خوب موج مستی اور فائرنگ کی جائے گی۔ احمد کے تمام دوست بھی اپنے اپنے پسٹل لیکر پہنچ چکے تھے ۔اب پورا شہر گولیوں کی آواز وںسے گونج رہا تھا ۔ایک ساتھ ہی 15 پسٹل گولیاں اگل رہے تھے مقابلہ بازی جاری تھی کہ محلے سے کسی نے تنگ آکر پولیس کو اطلاع کر دی پولیس نے آتے ہی چار لڑکوں کو حراست میں لیے لیا ۔اتنے میں احمد کے ابو آگئے جو علاقے کی ایک معروف شخصیت تھے۔
انہوں نے سب انسپکٹر کو ڈرائنگ روم میں بلا کر خاطر تواضع کی اور ہاتھ میں 5000کا نوٹ تھما دیا اور ساتھ میں کہا کہ ایک گھنٹے بعد بارات جانی ہے اب ہمیں تنگ نہ کیا جائے ۔آفیسر زیر حراست لڑکوں کو اسلحہ سمیت چھوڑ کر چلا گیا پانچ منٹ بعد دوبارہ فائرنگ کا وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ بارات جانے کاٹائم ہوتے ہی سب اپنی اپنی گاڑیوں کے پاس آجاتے ہیں اتنے میں اسلحہ چلانے کامقابلہ بھی عروج پر پہنچ جاتا ہے اور یہی گھڑی سب پر قیامت بن کر گزرتی ہے جب ایک دم سے گولیوں کی آواز تھم جاتی ہے اور چیخ و پکار اور رونے کی آواز سے پورا محلہ باہر آجاتاہے کیونکہ اچانک پسٹل پر قابو نہ رہنے پر دو لڑکوں کی گولیوں سے احمد کا بھائی چچا اور دو بچے خون میں لت پت زمین پر تڑپ رہے ہوتے ہیں ایمبولینس آ جاتی ہے لیکن ڈاکٹرنے دولہا حامد اور دونوں بچوں کی موت کی تصدیق کردی تھی اور احمد کے چچا کو شدید خطرناک حالت کے پیش نظر بڑے ہسپتال ریفر کر دیا گیا۔
Firing Killing
خوشیوں بھرا گھر ماتم کدے میں تبدیل ہو گیا۔ایک بات جو سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہم ہر روز ایسی خبریں پرھتے اور سنتے ہیں کہ ، شادی ، کرکٹ جیتنے کی خوشی ، میلوں، الیکشن جیتنے کی خوشی اور سینکڑوں خوشی کے موقعوں پر ہوائی فائرنگ کرتے ہیں اور اس سے بہت سی جانیںچلی جاتی ہیں لیکن ہم پھر بھی ان سب باتوں کو جانتے ہوئے بھی ان کاموں سے باز نہیں آتے اور خوشی بھرے گھر کو ماتم کدے میں تبدیل کردیتے ہیں۔
کیوں ہماری عقل وشعور پر بے عقلی کی پٹی بند ھ چکی ہوتی ہے اور زندگی کے چراغ بجانے کے ساتھ ساتھ ہم لاکھوں روپیہ ان فضول کاموں میں خرچ کر دیتے ہیں۔اگر ہم شادی کے موقعوں پر لاکھوں روپیہ جو فضول خرچی کرتے ہیں ان کو دوسروں کی مدد اور دیگر فلاحی کاموں کے لیے خرچ کریں تو دل کے سکون کے ساتھ ساتھ اجر بھی ملے گا۔
ہم لاکھوں روپے فضول خرچی کرنے کے بعد جب بے سکونی اور ذہنی ڈپریشن کی وجہ سے ڈاکٹر سے رجوع کرکے میڈیسن کے ذریعے ذہنی سکون تلاش کرتے ہیں ۔جو لوگ خدمت خلق پر یقین رکھتے ہیں ہمیشہ بے سکونی سے محفوظ رہتے ہیںمیڈیسن کی بھی ان کو ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔
ماہرین نفسیات بھی بے سکونی اور ڈپریسن کا علاج یہی بتاتے ہیں کہ آپ دوسروں کو خوش کرکے اس بے سکونی سے نجات پا سکتے ہیں مثلٰا غریب بچوں میں کپڑے تقسیم کرنا، مستحق بچیوں کی شادی میں مدد کرنا، کام کرتے بچوں کی پڑھائی میں مدد کرنا وغیرہ جیسے کام انسانی زندگی میں سکون اور اجر کا بحث بنتے ہیں اس لیے فضول خرچی کو چھوڑ کر ہمیں فلاحی کاموں پر توجہ دینی چایئے ۔تاکہ ہم پرسکون زندگی گزار سکیں۔
Umar Farooq
تحریر : عمر فاروق سردار۔ چیچاوطنی فون نمبر03065876765