بیت المقدس کی نقشہ تبدیلی

Israel

Israel

یورپ کے بعض ممالک میں متعین اسرائیلی سفارت کاروں کی اپنی حکومت کے خلاف جاری ہڑتالوں اور میزبان حکومتوں کے ساتھ عدم تعاون کے باعث عالمی رہ نماؤں کے اسرائیل دوروں پر گہرے منفی اثرات مرتب ہونے لگے ہیں۔اسرائیل سے شائع ہونے والے اخبار ”دی ٹائمز آف اسرائیل”نے اپنی رپورٹ میں اطلاع دی ہے کہ عیسائیوں کے مذہبی و روحانی مرکز ”ویٹی کن” اور برطانیہ کے صدر مقام لندن میں متعین اسرائیل کے بعض سفارت کاروں نے ہڑتالیں شروع کر رکھی ہیں۔ ان ہڑتالوں کے نتیجے میں عیسائیوں کے روحانی پیشوا ”پوپ فرینس”کا چوبیس تا چھبیس مئی کو دورہ اسرائیل مشکل میں پڑ گیا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ اسرائیلی وزارت خارجہ اپنے سفارت کاروں کے مطالبات کو نظر انداز کررہی ہے جس کے نتیجے میں وہ عدم تعاون اور مسلسل ہڑتالوں پر مجبور ہیں۔اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان ایگل پالمور کا کہنا ہے کہ صہیونی سفارت کاروں نے منگل سے ہڑتالیں شروع کر رکھیں جس کے بعد کئی عالمی رہ نماؤں کے دورہ اسرائیل کی راہ میں مشکلات کھڑی ہو رہی ہیں۔ آئندہ ہفتے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون دورہ اسرائیل کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پیش آئندہ ماہ کے آخر میں ویٹ کن سٹی کے سربراہ اور مسیحی برادری کے روحانی رہ نما نے اسرائیلی دورے کا اعلان کیا تھا لیکن اسرائیلی سفارت کاروں کی ہڑتالوں کے نتیجے میں اب یہ دورے مشکل دکھائی دے رہے ہیں۔

Al-Aqsa Mosque

Al-Aqsa Mosque

دوسری جانب مسجد اقصیٰ کی تعمیر و مرمت کی ذمہ دار تنظیم ”الاقصیٰ فاؤنڈیشن و ٹرسٹ”نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کے جنوب میں وادی سلون کو یہودیت
میں غرق کرنے خوفناک اسکیموں کی منظوری دے کر آگ سے کھیل رہا ہے ۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست حال ہی میں ”قیدم آڈیٹوریم ۔ توراتی ہیکل”کے نام سے ایک نئے تعمیراتی منصوبے پر کام شروع کیا ہے تاکہ وادی سلوان اور وادی حلوہ کی اسلامی شناخت تباہ کی جا سکے۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اقصیٰ فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ” جمعرات ”گزشتہ روز اسرائیلی تعمیرات وپلاننگ کمیٹی کا اجلاس علی الصباح شروع ہوا اور سہ پہر تک جاری رہا۔ اجلاس میں فلسطینی شہریوں کی جانب سے وادی حلوہ اور سلوان میں یہودی تعمیرات کے خلاف دائر درخواستیں مسترد کردیں جن میں قدیم بیت المقدس کی دیواروں سے محض 20 اور مسجد اقصیٰ سے صرف 100 میٹر دور چھ ایکڑ رقبے پر کئی عمارتوں کے منصوبوں پر کام شروع نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ بیت المقدس میں یہودی تعمیرات کے لیے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور وزیر داخلہ گیدعون ساعر کی جانب سے صہیونی تعمیراتی کمیٹی پر سخت دباؤ ہے۔ اس وقت تین اہم ادارے مل کر بیت المقدس کو یہودیت میں تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ تین ادارے اسرائیلی حکومت، بیت المقدس میں اسرائیل کی لوکل گورنمنٹ اور ”العاد” نامی تنظیم ہیں، جو رات دن بیت المقدس میں تعمیرات کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اقصیٰ فاؤنڈیشن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ صہیونی ریاست نے مسجد اقصیٰ کے جنوب میں یہودی توسیع پسندی کے کئی منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ ان میں مذہبی اسکولوں کا قیام، سیاحتی مراکز، ہوٹل اور یہودی معابد شامل ہیں۔ یہ تمام ادارے فلسطینیوں سے غصب کردہ ان کی چھ ایکڑ زرعی اراضی پر بنائے جارہے ہیں۔ سنہ 1967ء کی جنگ سے قبل فلسطینی شہری اس اراضی کو کاشت کاری اور کھیتی باڑی کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اب اسی جگہ پر ”العاد” کے تعاون سے ”قیدیم آڈیٹوریم”کے قیام کا منصوبہ شروع کیا گیا۔ آڈیٹوریم کی عمارت سات منزلہ ایک وسیع وعریض بلڈنگ ہوگی جس کی تین سے چار منزلیں زیرزمین ہوں گی۔ مجموعی طور پر یہ عمارت 17 ہزار مربع میٹر کا رقبہ گھیرے گی۔ بلڈنگ کی بیس منٹ میں 250 کاروں کی پارکنگ کی گنجائش کے لیے ایک پارکنگ اسٹینڈ بھی قائم کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیلی محکمہ آثار قدیمہ نے سنہ 2002ء اور 2003ء کے دوران وادی سلوان کے اسی علاقے میں زیرزمین کئی سرنگیں کھودیں اور یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی تھی کہ یہاں پر کسی زمانے میں یہودیوں کے قدیم کھنڈرات پائے گئے ہیں۔ اقصیٰ فاؤنڈیشن نے بیت المقدس بالخصوص وادی سلوان اور وادی حلوہ میں یہودیت کی توسیع پسندانہ سرگرمیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالم اسلام سے اس کی فوری روک تھام کی اپیل کی ہے۔ قبلہ اول کے محافظ ادارے کا کہنا ہے کہ اسرائیل جس تیزی کے ساتھ بیت المقدس کا نقشہ تبدیل کر رہا ہے ، مسلمانوں کو اس سے کہیں زیادہ وسائل اور طاقت کے استعمال سے اپنے تاریخی اور مقدس شہر کو بچانا ہو گا۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ