پاکستان میں 18 سال تک کی عمر کے 60 لاکھ سے زائد بچے کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں جن میں ذہنی معذور بچوں کی تعداد 30 فیصد، نابینا پن کا شکار 20 فیصد، قوت سماعت سے محروم 10 فیصد جبکہ جسمانی معذوری کا شکار بچے 40 فیصد ہیں۔ ادارہ شماریات کے 16 اکتوبر 2012ء کو جاری کئے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی آبادی 181 ملین ہے، جس میں سے معذور افراد کی کل تعداد ایک کروڑ 70 لاکھ سے زائد ہے یعنی کل آبادی کا تقریباً 7 فیصد حصہ۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق پنجاب میں 18,26,623، سندھ میں 9,29,400، خیبرپختونخواہ میں 3,75,448، بلوچستان میں 1,46421، فاٹا میں 21,705 جبکہ آزاد کشمیر میں 80, 333 افراد کسی نہ کسی معذوری میں مبتلا ہیں۔ صوبائی سطح پر آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ معذور افراد سندھ میں 3.05 فیصد ہیں، 2.48 فیصد کے ساتھ پنجاب دوسرے، 2.23 فیصد کے ساتھ بلوچستا ن تیسرے اور 2.12 فیصد کے ساتھ کے پی کے چوتھے نمبر پر ہے۔
صرف لاہور میں 2 لاکھ سے زائد افراد مختلف اقسام کی معذوری کا شکار ہیں جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں یہ تعداد 4.3 لاکھ کے قریب ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 1.1 لاکھ کے قریب خصوصی افراد بستے ہیں۔ وزارت سوشل ویلفیئر کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تقریباً ہر گائوں میں 10 سے 20بچے ایسے ہیں جو کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔ پورے پاکستان میں سرکاری و نجی 744 سپیشل ایجوکیشن کے ادارے کام کررہے ہیں جن میں سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد صرف 237 ہے۔ لاہور جیسے پاکستان کے دوسرے بڑے شہر میں صرف 46 سپیشل ایجوکیشن سنٹر ہیں، پورے سندھ میں 154 جبکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں صرف 122 جبکہ اسلام آباد جیسے شہر میں سپیشل ایجوکیشن کے سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی مجموعی تعداد 36 ہے۔ خصوصی بچے اہلیت اور قابلیت کے لحاظ سے کسی طوربھی نارمل بچوں سے کم نہیں ہیں، خصوصی بچوں کو تعلیم و تربیت کی بہترین سہولیات فراہم کر کے انہیں معاشرے کا مفید شہری بنایا جاسکتا ہے،پنجاب حکومت نے خصوصی بچوں کی بحالی ،نگہداشت اورتعلیم و تربیت کے لیے متعدد ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ پنجاب حکومت نے اس مقصد کے لیے موثر حکمت عملی اپنائی ہے
خصوصی بچوں کی بحالی کے اداروں میں تعلیم و تربیت کی سہولتوں کو بہتر بنایا گیا ہے۔خصوصی بچوں کے تعلیمی اداروں میں ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کے لیے بڑی تعداد میں بسیں فراہم کی گئی ہیں۔ حکومت نے خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے نہ صرف نئے ادارے تعمیر کیے ہیں بلکہ خصوصی بچوں کے لیے 37کمپیوٹر لیبز اور 99سپیشل ایجوکیشن سنٹروں کو پرائمری سے مڈل تک اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ پنجاب بھر میں خصوصی بچوں کے 237ادارے کام کررہے ہیں۔پنجاب حکومت خصوصی بچوں کے بحالی کے اداروں میں بچوں کو کتابیں،یونیفارم،ٹرانسپورٹ،آلات اوردیگر سہولیات کی مفت فراہمی کے علاوہ 800روپے ماہانہ وظیفہ بھی دے رہی ہے ۔خبر ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے معذور افراد کو تعلیم کے میدان میں سہولیات دینے کیلئے مراعات کا اعلان کیا ہے۔ شہباز شریف کی ہدایات پر تمام تعلیمی اداروں کے سربراہان کو ایک مراسلے کے ذریعے ہدایات جاری کی گئی ہے جسکے تحت تمام تعلیمی اداروں میں معذور طلبہ کے لئے عمر کی حد کو ختم کر دیا گیا ہے۔ معذور طلبہ کو داخلہ لینے کی صورت میں لیپ ٹاپ جبکہ تعلیم مکمل کرنے کی صورت میں الیکٹرک ویل چیئر دی جائے گی۔
معذور طلبہ تعلیمی اداروں میں کسی بھی طرح کے تعلیمی اخراجات، ہاسٹل اور یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہوں گے۔ ہائیر ایجوکیشن میں خصوصی طلبہ کے لئے ایک سیٹ بھی مختص کی جائے گی۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ کے لئے خصوصی کتب، خصوصی ریمپ اور خصوصی باتھ رومز بھی بنانے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ ان طلبہ کو عملی زندگی میں باوقار بنانے کے لئے سنٹرز کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔وزیر اعلیٰ پنجاب کا معذور افراد کے لئے پیکج و سہولیات خوش آئند ہے اسے یقینا معذور افراد کو معاشرے کا باہمت فرد بننے کا موقع ملے گا۔ایک تقریب میں صدر پاکستان ممنون حسین نے کہا کہ ذہنی اور جسمانی طور پر معذور افراد کے بارے میں درست اعداد و شمار نہ ہونے کی ایک وجہ والدین کی طرف سے اپنے بچوں کی جانی اور ذہنی کمزوریوں کو چھپانا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ افراد جو ذہنی عارضوں میں مبتلا ہوتے ہیں ان کا علاج اور دیکھ بھال نہ کئے جانے کی وجہ سے وہ سماجی طور پر تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں اور لوگ ان پر ترس کرنے لگتے ہیں۔ موروثی طور پر پائے جانے والے عارضوں کے علاوہ خوراک کی کمی ویکسینیشن کی کمی خاص طور پر پولیو کی ویکسینیشن کرانے سے گریز’ قدرتی آفات اور تشدد اور تصادم ایسی وجوہ ہیں جن سے پاکستان میں ذہنی اور جسمانی طور پر معذور لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بات تشویش کا سبب ہے
پاکستان میں کوئی ایسا موثر طریقہ کار موجود نہیں جس کے ذریعہ خصوصی بچوں اور دوسرے افراد کا تحفظ اور دیکھ بھال کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے حکومت’ مخیر حضرات اداروں اور این جی اوز کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ ذہنی محویت کا شکار بچوں کو لاحق عارضے ان کے علاج اور معاشرے میں ان کی بحالی کیلئے شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی ترقی میں معذورافرادکا بھی اہم کردارہے کیونکہ یہ افرادبھی بے مثال خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں۔ا سپیشل اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ کا بہت اہم مقام ہے جو ان بچوں کواس قابل بناتے ہیں کہ وہ معاشرے کافعال رکن بن سکیں۔پنجاب حکومت بھی ان لوگوں کی تعلیم وتربیت پرخصوصی توجہ دے رہی ہے۔ معذور بچوں کو معاشرے کے لیے کارآمد بنانا ہم سب کا فرض ہے حکومت پنجاب بالخصوص وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف معذور بچوں کے ساتھ خصوصی محبت کی بدولت اس میں دلچسپی لے رہے ہیں ـ پنجاب حکومت کے لاہور کے علاقے راجگڑھ میں موجود سپیشل ایجوکیشن سنٹر میں نتائج کے روز جانے کا موقع ملا۔ویسے تو روزانہ سکول کے باہر سے گزرنا ہوتا ہے کیونکہ میری رہائش بھی اسی علاقے میں ہے اور رہائش کی سب سے بڑی وجہ میرا بیٹا ہے جو اس سپیشل ایجوکیشن سنٹر میں زیر تعلیم تھا۔
ریزلٹ و تقسیم انعامات کی تقریب میں طلباء طالبات اور انکے والدین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ڈیف ایند ڈیفیکٹو گورنمنٹ گرلز ہائی سکول راجگڑھ میں منعقدہ تقریب میں سکول کی پرنسپل ریحانہ شاہد اور مس شہزادی نے پوزیشن ہولڈرز طلباء طالبات میں انعامات تقسیم کئے۔ہونہار طالب علم اسرار حیدر نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس موقع پر سکول کا سٹاف بھی موجود تھا۔ ڈیف ایند ڈیفیکٹو گورنمنٹ گرلز ہائی سکول راجگڑھ کی پرنسپل ریحانہ شاہد نے کہا کہ سپیشل بچے خصوصی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں، اساتذہ ان صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے اجاگر کریں گے تو یہ معاشرے کی بہتری کے لئے کردار ادا کرسکتے ہیں۔انہوں نے پوزیشن ہولڈر و دیگر پاس ہونے والے طلباء طالبات کو مبارکباد دی۔مس شہزادی حنیف نے کہا کہ ریحانہ شاہدکی سربراہی میں چلنے والا سینٹر قابل تعریف ہے اور ترقی کی راہ پر گا مزن ہے۔ سپیشل بچے بھی اسی طرح آنکھوں کے تارے ہیں جس طرح ہمارے نارمل بچے ہیں لیکن ان کوسپیشل بچے کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی ہمیں ان کی کفالت کرنا ہوگی تاکہ یہ نارمل زندگی گزارسکیں۔ گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سینٹر کی پرنسپل نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔اگرچہ پنجاب حکومت نے اگرچہ خصوصی بچوں کی بحالی کے لیے بے شمار اقدامات کیے ہیں تاہم اس حوالے سے ابھی مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
Educational Institutions
سپیشل تعلیمی اداروں کے لئے عوام میں آگاہی کی ضرورت ہے تا کہ وہ لوگ جن کے بچے سکولوں میں نہیں جا رہے وہ انکو پنجاب حکومت کے ان اداروں میں داخل کروائیں۔حکومت کو ان سپیشل بچوں کے لئے بنائے گئے مراکز کی ایک مانیٹرنگ پالیسی بھی بنانی چاہئے جو اس بات کو چیک کرے کہ مراکز میں کتنے بچے زیر تعلیم ہیں اور ان بچو ں کے والدین سے بھی تجاویز لینی چاہئے ۔خصوصی طور پر سپیشل بچوں کا ریکاڈ تیار کروانا چاہئے اور جو والدین اپنے سپیشل بچوں کو سکول نہیں بھیجتے ان کو حکومت کی طرف سے سختی سے پیغام جانا چاہئے۔وہ بچے جن کے گھروں سے سپیشل ایجوکیشن کے سنٹر دور ہیں حکومت کو چاہئے کہ مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت تو خوش آئند ہے مگر اس میں اضافہ کیا جائے اگر بچوں کو گھروں سے ہی اٹھانے کا انتظام کیا جائے تو اس طرح مزید بچے بھی سکول میں آنا شروع ہو جائیں گے ۔صرف مین روڈ پر یا ایک علاقے تک گاڑیوں کو محدود نہ کیا جائے ۔حکومت سب کچھ کر سکتی ہے ،وزیراعلیٰ صاحب ایک ایسی کمیٹی بنائیں جو گاڑیوں کے مسائل کو حل کرے کیونکہ جب گاڑیاں بچوں کو لے کر آئیں گی تو سکولوں میں حاضری ہو گی ۔خصوصی بچے امن کے پیامبر اور سفیر ہیں، ان کی نگہداشت ،بحالی اور تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔پنجاب کی طرح دیگر صوبوں کو بھی ایسے مراکز بنانے چاہئے جو سپیشل بچوں کو معاشرے کا بہترین فرد بنانے میں کردار ادا کریں۔