سیالکوٹ کو امن وامان کا گہواہ بنانے کیلئے محکمہ پولیس نے’ ‘سٹی، صدر، ڈسکہ، سمڑیال، پسرور سرکل” میں تقسیم کیا ہو ا ہے۔ جس میں 27 تھانے اوردرجن کے قریب پولیس چوکیوں کو قائم کیا ہواہے۔تاریخی حوالے سے یہ شہرپنجاب کے شمال مشرق میں لائن آف کنٹرول پرواقع ہے ۔اس کے شمال میں دریائے چناب اس کی حدود میں داخل ہوتا ہے ۔ سیالکوٹ کی تاریخ 500 سال قبل مسیح پرانی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ سیالکوٹ کو راجہ سل نے آباد کیا اور پھر وکرم آدیتیا کے دور میں راجہ سلوان نے اسے دوبارہ آباد کیا۔ یہاں دسویں صدی کے قلعے بھی موجود ہیں جو 1181 ء میں محمود غوری کے دور میں بنائے گئے۔ یہ قلعے آج بھی تاریخ رفتہ کی یادگار ہیں۔ اس شہر کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ یہاں مختلف ادوار میں مختلف تہذبوں ہندی،ایرانی اور اسلامی تہذیب کا راج رہا ہے ۔سیالکوٹ میں قومی اسمبلی کے 5جبکہ صوبائی اسمبلی کے 10 حلقے ہیں۔
پنجاب پولیس کا محکمہ پنجاب کے ان اولین محکموںمیں سے ایک ہے جو انگریز نے اس وقت قائم کیا جب برصغیر کو مکمل طور پر اپنے تحت کر لیا تھا۔ انسان کا کون سا عمل جرم ہے اور کون سا عمل نہ کرنا غیر قانونی اور جرم ہے اسے لارڈ میکالے کی 1860میں متعارف کی جانے والی ایک ضخیم کتاب ”Indian penal code ”میں صراحت سے بیان کر دیا گیا ہے جو 511دفعات پر مشتمل ہے ۔ اس میں جرائم کو مخصوص دفعات کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور جرم کی سزا بھی ساتھ ہی بیان کر دی گئی ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد قانون کی اس کتاب کو ‘ پاکستان پینل کوڈ کا نام دیا گیا۔ اردو میں اسے تعزیرات پاکستان کہا جاتا ہے۔ اس کی کئی دفعات میں ترمیم بھی کی گئی ہے جن میں سابق صدر پاکستان ضیا الحق کی طرف سے ملک میں اسلامی نظام کے نفاز کی کوششوں کے ضمن میں تعزیرات پاکستان کے دو اہم ابواب کی جگہ دو آرڈینینسز شامل کیے گئے۔ ان میں ایک ‘ قصاص دیت آرڈینینس1979اور دوسرا حدود قوانین آرڈیننس 1979ہیں۔ عدالتوں کو ایک ضابطے کے تحت کام کرنے کے لیے ‘ضابطہ فوجداری ‘ بھی انگریزوں کا تحریر کردہ ہے۔
Shahbaz Sharif
پنجاب ایک ایسا صوبہ ہے جس کے وزیر اعلیٰ پولیس کو خاص اہمیت دیتے ہیں اور ان کے ہر دور میں پولیس کو مراعات سے نوازا گیا۔ خادم اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف قانون پر اور میرٹ کے حوالے سے ایک خاص پہچان رکھتے ہیں اس کے باوجود پے در پے ایسے واقعات کا رونما ہونا پولیس کی روایتی ہٹ دھرمی اور بے حسی کا ثبوت ہیں۔یوں تو سیالکوٹ صنعتی حوالے سے پوری دنیا میںمشہور ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مشہور صنعتی شہروں میں سے تیسرے نمبر پر بھی ہے۔اگرامن وامان کی بات کی جائے تو چند سالوں میں محکمہ پولیس نے جو سب اچھا کی رپورٹ کی ۔وہ یہ ہے کہ 2003ء سے2014تک چند مشہور ہونے والے واقعات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے ۔ محکمہ پولیس کے ملازمین نے پوری دنیا میں بہت نام کمایاہے۔ 2003 میں پولیس اور قیدیوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں جیل کے دورے پر آئے چار سول ججز موقع پر جاں بحق ہوگئے تھے ۔ اس وقت کے سینئر سول جج یوسف اوجلہ نے سابق ڈی آئی جی ملک اقبال، سابق ڈی پی او سیالکوٹ جاوید سلیمی، سابق ڈی پی او گجرات راجہ منور حسین اور سابق سپرنٹنڈنٹ جیل سکندر حیات سمیت 28 ملزمان کے خلاف تھانہ سول لائنز سیالکوٹ میں ایف آئی آر درج کرائی۔تھانہ صدرپسرورکے گائوں تحت پور میں ایک ماسٹر کے بیٹے کو اغوا برائے تاوان میں زندہ جلادیاگیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے موقعہ پر پہنچ کر تحت پور میں پولیس چوکی قائم کردی۔ دوسرا افسوس ناک واقعہ موضع بھاگ میں پیش آیا جہاںسات سال کی بچی کو جائیداد کے تنازعہ میں زندہ جلادیاگیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب کو پھر موقع پر جانا پڑا۔ اگست 2008 میں سیالکوٹ میں ایک شخص ٹیکسی ڈرائیور محمد طارق کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک اور اس کے ساتھی محمد عنایت کوزخمی کرنے والے پنجاب پولیس کے 17 اہلکاروں کو عدالت عالیہ نے نو کری سے فارغ کردیا تھا۔ فارغ ہونے والے پولیس اہلکاروں میں چار انسپکٹر اور پانچ سب انسپکٹر بھی شامل تھے۔سیالکوٹ کے قریب بٹر گاؤں میں مشتعل افراد نے 15 اگست 2010 کو دو بھائیوں حافظ منیب اور حافظ مغیث کو تشدد کرکے قتل کر دیا تھا، جبکہ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ سابق ڈی پی او وقار احمد چوہان سمیت 28ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا۔ جرم میں 9 سابق پولیس اہلکاروں سمیت 22 افراد کو سزا سنائی گئی۔بعد میں متعدد ملزمان باعزت بری ہوگئے۔تمام واقعات میں ملوث افرادپنجاب پولیس کے فرائض سرانجام دے رہیے ہیں۔
پولیس میں سپاہی سے لے کر اعلیٰ افسران کو بھرتی کے بعد کرائے جانے والے پہلے کورس یا ٹریننگ میں تعزیرات پاکستان پڑھائی جاتی ہے ۔ عدالتیں بھی تعزیرات پاکستان کے تحت، جرم ثابت ہونے پر، مجرموں کو سزا دیتی ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں دیگر قوانین کی طرح اس قانون کی قانون نافذ کرنے والوں کے ہاتھوں خلاف ورزی کی خبریں آئے روز میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔جنوری 2008 سے مارچ 2014تک وزیراعلیٰ پنجا ب شکایات سیل ، آئی جی پنجاب سمیت اعلیٰ احکام کی طرف سے جاری ہونے والے ہزاروں احکامات پر عمل درآمد نہ ہو سکا بلکہ متاثرین بہت سی پریشانیوں بھی سامنا کرنا پڑا ہے جن پولیس ملازمین پرقبضہ گروپ،ڈکیت گینگ وغیرہ کی سرپرستی کا الزام ہے ان کو ترقیوں سے نواز جارہاہے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کو مختلف طریقوں سے خوف زدہ کرکے ضلع سیالکوٹ کو پولیس اسٹیٹ بنایاجارہاہے۔شہریوں کے مطابق پولیس ملازمین کا ایک طریقہ یہ ہے قبضہ کرنے بعد کہتے ہیں کہ اگریہ آپ کا حق ہے تو عدالت جائیں یہ ہماراکام نہیں عدالت اور محکمہ مال کا ہے۔ آج کے بعد تھانے کے قریب نظرآنا ورنہ اس انجام براہوگا۔ ”سرفہرست تھانوں میں صدر پسرور، حاجی پورہ ،صدر ڈسکہ ہیں”سادہ لوح مختلف چکرلگالگااپنے حق محروم ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن ڈی پی او سیالکوٹ کا ہرپریس کانفرنس میں دعویٰ رہاہے کہ پولیس ملازمین عوامی خدمت کیلئے ہروقت چوکس رہتے ہیں۔
پرانا تھانہ کلچر تبدیل کرنے، صوبے کوکرائم فر ی اور کرپشن فری بنانے اور عوام میں پولیس کا سافٹ امیج پیدا کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے ماضی میں صوبے میں 100 ماڈل پولیس اسٹیشن بنانے کا منصوبہ بھی بنایا جن کی لاگت64کروڑ روپے تھی۔لاہور کی حدتک روز نامچوں سمیت تھانوں کا ریکارڈ کو کمپیوٹر ائزڈ کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ہر ماڈل تھانے کو ایک لاکھ روپے ماہانہ کی خصوصی گرانٹ کی تجویز صوبائی حکومت کو پہلے ہی دی جا چکی ہے۔موجودہ صوبائی حکومت نے اپنے پہلے دور میں بھی پولیس کو تنخواہ میں اضافے سمیت کافی مراعات دیں لیکن پولیس کارکردگی کے حوالے سے مطلوبہ نتائج ظاہر نہ کر سکی۔ بلکہ جو ں جوں مراعات میں اضافہ ہوتا گیا صوبے میں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔سیاسی مقاصد حاصل کرنے اور مخالفین کو ” سبق” سکھانے کے لیے پولیس کو بہترین طاقت تصور کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں مختلف سیاسی جماعتوں نے کئی بار اس سے مستفید ہونے کا ذائقہ چکھا ہے۔