بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے آج پارلیمنٹ میں درجنوں سیاستدان ایسے موجود ہیں جو بلدیاتی اداروں کی پیداوار ہیں بنیادی جمہوریت کے اس پلیٹ فارم پر کام کرنے والے ہمیشہ فعال کردار کے حامل رہے لیکن اس کے باوجود بلدیاتی انتخابات کے نام پر امیدواروں کے ساتھ ایسا سنگین مذاق کیا گیا جس کی دنیا بھر میں کوئی دوسری مثال نہیں مل سکتی پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے 80 ہزارسے زائد بلدیاتی امیدواروں کے ساتھ ہاتھ کیا گیا دو دوبار فیسیں جمع الیکشن کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں۔
چیئر مین، وائس چیئر مین کے ہزاروں امیدوار وںنے مشکل صورت ِ حال کے باوجود اپنے پینل مکمل کئے بیشتر کونسلروں کی سیکورٹی فیس بھی ذاتی گرہ سے جمع کروائی ، فلیکس، سٹکر، اشتہار، بینر بنائے اور انتخابی دفتر قائم کئے ووٹروں سپورٹروں کی ضروریات کا خیال رکھا، آئے گئے کی انتخابی دفاتر میں بریانی ، چائے، بسکٹ اور مٹھائی سے تواضح کی جاتی رہی ہر امیدوارنے لاکھوں روپے خرچ کر ڈالے لیکن الیکشن ملتوی ہونے سے سب مٹی ہو گیا۔۔الیکشن کمیشن کا یہ اعلان کہ جو امیدوار فیس جمع کروا چکے ہیں انہیں دوبارہ فیس جمع نہیں کروانا پڑے گی اس اعلان پر تو عملاً عملدرآمد ہوتا نظرنہیں آرہا اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ نئی حلقہ بندیاں بننے سے فیس کے ساتھ الیکشن کمیشن کو جمع کروائے تمام پینل ٹوٹ جائیں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کاالتواء جلدبازی کے فیصلوں کا نتیجہ ہے جس کا عوام پر اچھا تاثر نہیں پیدا ہوا حالانکہ موجودہ حالات حلقہ بندیوں کیلئے انتہائی موزوں ہے الیکشن شیڈول کااعلان کر کے حکومت مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کروا سکتی ہے یہی بہتر، سہل اور آسان طریقہ ہے۔
لوکل باڈیز الیکشن ملتوی ہونے کے بعد سیاست ٹھنڈی ٹھارہ و گئی ہے۔۔ بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی بہت سارے لوگ پینٹر، فلیکس، کاغذ ، پریس والوں کے ساتھ ساتھ دیہاڑی دار”سرگرم ِ عمل ہو گئے ” تھے جو کام کے نہ کاج کے۔۔دشمن اناج کے تھے وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ منہ دھونے بلکہ سچ جانئے تو نہانے لگ گئے تھے امیدوار کے انتخابی دفاتر اور ڈیروں پر ڈھول بجتے تو اچھے خاصے لوگ لڈیاں، دھمال ڈالتے اورنعرے لگاتے بریاتی کھا کر گھروں کو لوٹ جاتے کئی جیبوں میں نوٹ بھی لے جاتے پھر اچانک اس ماحول کو کسی کی نظر لگ گئی جہاں الیکشن کی ہا ہا کار مچی ہوئی تھی وہاں الو بولنے لگے اور بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے سے کئی دہاڑی لگانے والوں کے منہ لٹک گئے اس کے ساتھ ساتھ امیدواروں کے چہرے بھی مر جھا گئے ہیں بیشتر امیدواروں نے اپنے انتخابی دفاتر بند کر دئیے ہیں در اصل بلدیاتی انتخابات کا انعقاد شروع دن سے ہی مشکوک تھا اس میں حکومتی بے حسی کا زیادہ دخل کہا جا سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی صوبائی حکومت، بیور و کریسی اور خاص طور پر ارکان ِ اسمبلی اختیارات تقسیم کرنا ہی نہیں چاہتے۔۔
بلدیاتی انتخابات ہو نے سے عام آدمی بھی اختیارات کی دوڑ میں شامل ہو جاتا جو اس ٹرائیکا کو گوارا نہیں تھا۔۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب ترک وزیر اعظم جو خود ماضی میں ایک بلدیاتی ادارے کے میئر رہ چکے ہیں لاہور میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا تو پاکستانی حکام کے ساتھ استنبول کے میئر کا تعارف کروایا گیا جب انہوں نے لاہور کے میئر بارے استفسار کیا تو ہر بات پر ترکی کو فالو کرنے والے حکمرانوں کی حالت دیدنی تھی پھر انہوں نے جلدی سے ایک سابق لارڈ میئر کو آگے کر دیا۔
Pervez Musharraf
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دیکھا جائے تو محسوس ہو گا کہ جنرل مشرف کا تجویز کردہ ضلعی حکومتوں کا نظام عوام کے بہترین مفادمیں تھا جس کے تحت ملک بھر میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام اس دور میں ہوئے اس لئے اس سسٹم کو جمہوریت کی بنیاد بھی کہا جا سکتا ہے جس کی بدولت نہ صرف اختیارات نچلی سطح پر تقسیم ہوئے بلکہ عوامی مسائل بہتر انداز سے حل ہونے میں پیشرفت ہوئی اس وقت کئی مسلم اورمغربی ممالک میں ضلعی حکومتوں پر مبنی بلدیاتی نظام اپنی بھرپور افادیت کے ساتھ کام کررہا ہے پاکستان میں بھی اس سسٹم کا کامیاب تجربہ ہو چکا ہے اس نظام میں ترمیم کر کے مزید مؤثر بنانے کی ضرورت تھی۔
بلدیاتی اداروں کے انتخابات نہ کر وانے کے اعلان سے عوام کو عملأٔ بیور کریسی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو اب چھوٹے چھوٹے مسائل حل کروانے کیلئے افسروں کی منتیں کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ،حالانکہ ناظمین یا چیئر مین اور کونسلر عوام کے منتخب نمائیدے ہوتے ہیں بلدیاتی اداروں میں سرکاری ایڈ منسٹریٹر تعینات کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔
لوکل باڈیز کے حوالہ سے عوام میں پیپلز پارٹی با رے کوئی اچھا تاثرنہیں ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت بھی اس کی صف میں شامل ہو گئی ہے جو پہلے ہاتھ دھو کر ضلعی بلدیاتی سسٹم کے پیچھے پڑی رہی پھر اس نے گذشتہ پانچ سال بھی بلدیاتی الیکشن کروانے کی ذمہ داری پوری نہیں کی جو سمجھ سے بالاتر ہے بلدیاتی سسٹم جو بھی ہو عوام کی خدمت کا مؤثر ذریعہ ہے اب مسلم لیگ ن کی حکومت نے ضلعی حکومتوں کے نظام کو ہی فالو کر کے ناظم کا نام چیئر مین اور نائب ناظم کو وائس چیئر مین کا نام دے کر نیا لو کل باڈیز ایکٹ تیار کیا تھا یعنی یہ ضلعی حکومتی نظام کا جدید ایڈیشن ہے۔۔۔ حالانکہ خامیاں دور کر کے ضلعی حکومتوں کے نظام کو مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا۔
کتنا ستم ظریف تھا وہ آدمی قتیل مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا
ایک تاریخ یہ بھی ہے کہ آج تک کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے ہمیشہ بلدیاتی انتخابات ڈکٹیٹروں کی چھڑی کے اشارے سے ہوئے ہیں شاید تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرارہی ہے لیکن ہم تو دعا ہی کرسکتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم اور ہماری جمہوری حکومتوں کو تاریخ کے اس چکر سے بچائے۔۔۔۔ ویسے ایک تجویز ہے کہ عدلیہ اور حکومت مل کر ایک ایسا آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن تشکیل دے جو حکومتی اداروں کی کشمکش اورانکے اثر سے واقعی آزاد ہو۔۔۔ جو وقت ِ مقررہ پر صوبائی ، قومی اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے خودبخود کام کرتا رہے۔ آخرمیں میرا ایک سوال یہ ہے آپ جمہوریت کے دعویدار بھی عوام کو انکے بنیادی حق سے محروم رکھ کر بلدیاتی انتخابات نہ کروائیں تو پھراس ادا کو آپ کیا نام دیں گے ؟
کتنا ستم ظریف تھا وہ آدمی قتیل مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا