طالبان سے مذاکرات موجودہ حکومت کا دانشمندانہ اقدام

کروڑ لعل عیسن ( نامہ نگار) طالبان سے مذاکرات موجودہ حکومت کا دانشمندانہ اقدام ہے۔ چوہدری نثار علی خان سنجیدہ وزیر داخلہ ہیں۔ امن طاقت سے نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ حکومت نے قیدی رہا کر کے سنجیدہ مذاکرات کی جانب قدم بڑھایا ہے۔ اہلسنت و جماعت کے کاکنوں کو منظم سازش کے تحت قتل کیا جا رہا ہے۔

جس میں ایران براہ راست ملوث ہے۔ دوسری جانب ایران کی جانب سے پاکستان کے ساتھ جنگ کی دھمکی پاکستانی شیعہ قیادت سے ہمارا سوال ہے کہ وہ جواب دیں کہ اگر ایران نے پاکستان پر حملہ کیا تو وہ پاکستان کے ساتھ ہونگے یا ایران کے ساتھ۔ اگر خاموشی ہے تو پھر بھی ان کی ہمدردی ایران کے ساتھ ہے۔ حکمرانوں کو ملک سے محبت اور نفرت کرنے والوں کے درمیان فرق رکھنا ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اہلسنت کے مرکزی رہنما مولانا محمد احمد لدھیانوی نے گزشتہ روز جامعہ رحمانیہ جھرکل میں پریس کانفرنس اور ایک بڑے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت پر امن جماعت ہے۔ اور دہشتگردوں سے کوئی تعلق نہیں۔

اس کے باجود کہ ہماری جماعت کے پانچ سربراہ 11 مرکزی رہنما اور 7 ہزار کاکن شہید کر دیئے گئے۔ لیکن ہم نے بھی قانون ہاتھ میں نہیں لیا۔ کراچی میں پکڑے گئے دہشتگرد جن کا تعلق سپاہ محمد سے تھا۔ ہمارے سینکڑوں کارکنوں اور رہنائوں کے قتل عام میں ملوث ہیںنے انکشاف کیا کہ انہیں ایران دہشتگردی کی تربیت دے کر پاکستان میں علمائے کرام کے قتل عام کرنے کیلئے بھیجتا ہے اور باقائدہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ مولانا اورنگ زیب فاروقی کے قتل کیلئے انہیں 20 لاکھ روپے اور 11 لاکھ کی گاڑی دی گئی۔ دہشتگردوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں قتل عام کر کے دبئی کے راستے ایران چلے جاتے ہیں ۔ اسی طعح گزشتہ مہینوں میں ایران نے پاکستان پر اپنے سفارت کاروں کے اغواء کا الزام عائد کر کے پاکستان کے ساتھ جنگ کی دھمکی دی تھی۔ لیکن ان کے سفارت کار ایران سے ہی بازیاب ہوئے۔ جن سے ان کا فریب سامنے آگیا۔ مولانا محمد احمد لدھیانوی نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اہلسنت کا قتل عام فی الفور بند کیا جائے اور حکومت ایران سے جواب طلب کی جائے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ملک میں اہم مسئلہ طالبان سے مذاکرات کا ہے۔ حکومت نے کچھ قیدیوں کو رہا کر کے سنجیدگی کا مظاہرا کیا ہے۔ مذاکرات کے دشمن امن کے دشمن ہیں۔ جنہوں نے انڈیا سے مذاکرات پر تبصرا تو کبھی نہیں کیا۔

جو کہ ہمارا ازلی دشمن ہے۔ جس کے ساتھ دو جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ تجارت کے نام پر بھارت کے ساتھ دوستی کی بات کرنے والوں کو شرم آنی چاہیئے۔ میاں نواز شریف سے لاکھ سیاسی اختلاف کے باوجود ان کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ جلسہ سے سرپرست جماعت خلیفہ عبدالقیوم ، قاری محمد عمر ، قاری عبدالرحمن رحمانی ، قاری شبیر احمد عثمانی ، قاری اللہ نواز سرگانی ، عمر فاروق سرگانی ، مولانا عبدالکریم ندیم ، مولانا حیات تونسوی ، مولانا محمد معاویہ ، مولانا عبدالحمید خالد ، قاری محمد ادریس آصف سمیت دیگر علماء نے بھی خطاب کیا۔ آخر میں جامعہ رحمانیہ کے طلباء کی دستار بندی کی گئی۔ اور مولانا خلیفہ عبدالقیوم سابق ایم پی اے نے اختتامی دعا کروائی۔