پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان میں پرامن انتخابات کا انعقاد ایک اہم کامیابی ہے تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ انتخابات کس حد تک منصفانہ طور سے منعقد ہوئے ہیں اور نیا لیڈر عوام کا کتنا جائز نمائندہ ہو گا۔ طالبان کی دھمکیوں اور انتخابات سے قبل حملوں کی وجہ سے بیشتر غیر ملکی جرنلسٹ ملک چھوڑ چکے تھے۔ اسی طرح عالمی مبصرین بھی افغان انتخابات کی نگرانی کرنے کے لئے موجود نہیں تھے۔ انتخابات کے فوری بعد ہر طرف سے دھاندلی کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں اور ان کی روشنی میں کئی لاکھ ووٹ مسترد بھی کئے گئے ہیں۔ اس پریشان کن صورتحال کے باوجود ان انتخابات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ افغان عوام کے لئے یہ واقعہ اندھیرے میں روشنی کی ایک موہوم سی کرن کے مترادف ہے۔
غیرملکی ذرائع ابلاغ سے معلوم ہواہے کہ افغان طالبان ان انتخابات کے دوران دہشت گردی کے ذریعے افراتفری پیدا کرنا چاہتے تھے ۔ اس طرح ایک طرف انتخابات شبہات کا شکار ہو جاتے تو دوسری طرف طالبان کی دہشت میں اضافہ ہوتا۔ انتخابات سے قبل طالبان نے بم دھماکوں اور حملوں میں اضافہ بھی کیا لیکن وہ نہ تو انتخابات کا انعقاد روکنے میں کامیاب ہو سکے تھے اور نہ اس کے نتائج پر ان کا کوئی اثر ہو گا۔ یہ صورتحال کسی طرح بھی مستقبل کے افغانستان میں طالبان کے نقطہ نظر سے خوش آئند نہیں ہے ۔طالبان کی کل طاقت پاکستانی قبائلی علاقوں میں ان کے ہمدرد عناصر اور ان کے گوریلا ہتھکنڈے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اتحادی افواج نے اپنے 12 سالہ دور میں چار لاکھ کے لگ بھگ افغان فوج اور پولیس کو تیار کیا ہے۔
Afghanistan
ان کی پروفیشنل تربیت کا اہتمام کیا گیا ہے اور مغربی ممالک مستقبل میں افغانستان کی اقتصادی اور دفاعی امداد جاری رکھنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ اس لئے انتخابات کے بعد ملک میں جو بھی صدر منتخب ہو کر اقتدار میں آئے ، طالبان صرف طاقت کے بل بوتے پر افغان نظام کو تہہ و بالا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ہفتہ کے روز انتخابات کا پرامن انعقاد دراصل افغان سکیورٹی فورسز کی شاندار کامیابی ہے۔ حکومت نے اپنی تمام دستیاب فورسز کو انتخابی مراکز کی نگرانی کے لئے متعین کیا تھا۔ اس طرح سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغان افواج اپنے پہلے امتحان میں کامیاب ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما سمیت دنیا بھر کے لیڈروں نے افغانستان میں انتخابات کے پرامن انعقاد پر افغان حکومت اور عوام کو مبارکباد دی ہے۔ اس میں تو شبہ نہیں ہے کہ افغان افواج کو ابھی مزید تربیت کے علاوہ استحکام کی ضرورت ہے لیکن طالبان کی خطرناک دھمکیوں کے باوجود ان کے ارادوں کو ناکام بنا کر افغان افواج نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد بھی طالبان کا مقابلہ کرنے کی ہمت و حوصلہ رکھتی ہیں۔
افغانستان میں ہفتہ کے روز صدارتی اور پارلیمنٹ کے انتخابات کا مرحلہ خیر خوبی سے سرانجام پا گیا ہے ۔ طالبان کی دھمکیوں اور دہشت گردی کے اندیشوں کے باوجود خوں ریزی کا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہؤا۔ ان پرامن انتخابات کو اگر افغان اور اتحادی افواج کی کامیابی نہ بھی قرار دیا جائے تو بھی یہ طالبان کی ناکامی ضرور ہیں۔طالبان نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ غیر ملکی افواج کی موجودگی میں منصفانہ انتخابات منعقد نہیں ہو سکتے۔ اس لئے ان انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ لیکن درحقیقت طالبان کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ ان کی حکمت عملی اور دہشت گردی کی وجہ سے صرف اتحادی افواج ہی نہیں ، افغان عوام بھی ان سے تنگ آ چکے ہیں۔افغانستان میں تین نسلوں سے خوں ریزی کا دور دورہ ہے۔ لوگ اب جنگ سے تنگ آ چکے ہیں۔
عام افغان شہری جس قدر غیر ملکی افواج کا ملک سے انخلاء چاہتا ہے ، وہ اتنا ہی طالبان کی ہٹ دھرمی ، انتہا پسندی اور قتل و غارتگری سے بھی تنگ اور عاجز ہے۔ طالبان کی دہشت گردی اور مصالحت سے گریز کی پالیسی کی وجہ سے عام لوگ کسی صورت انہیں منتخب کر کے حکومت میں لانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وہ ایک بار پہلے بھی طالبان کے جھانسے میں آ چکے ہیں۔ اس دور حکومت میں طالبان کی قیادت نے سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان کو پوری دنیا میں تنہا کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی افغان عوام کے لئے بھی زندگی اجیرن کر دی تھی۔
طالبان کا یہ بالواسطہ پروپیگنڈا فیس سیونگ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ پرامن انتخابات کے انعقاد سے طالبان کی سیاسی پوزیشن کمزور ہوئی ہے اور تازہ تیار شدہ افغان سکیورٹی فورسز نے طالبان کی عسکری صلاحیت کو بھی چیلنج کیا ہے۔ مغربی سفارتی ذرائع اس بات کے اشارے دیتے رہے ہیں کہ افغان انتخاب میں شامل تمام امیدوار مغرب کے ساتھ سکیورٹی معاہدہ کے حامی ہیں۔ اس طرح امکان ہے کہ جو بھی صدر منتخب ہو کر آئے ، وہ اس معاہدہ پر دستخط کر دے گا۔البتہ اس سوال کا حتمی جواب تو نیا صدر اور اس کا اعلامیہ سامنے آنے کے بعد ہی مل سکے گا۔ لیکن سکیورٹی معاہدہ افغان افواج کی پشت پناہی اور طالبان کو مسلسل کمزور کرنے کے لئے ضروری ہو گا۔ یہ معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں نیٹو ممالک کو اندیشہ ہے کہ انہوں نے بارہ برس کی مدت میں طالبان کی قوت اور اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی جو کوشش کی تھی ، وہ ناکارہ ہو جائے گی۔
ان انتخابات کے حوالے سے نیٹو ممالک میں بے حد جوش و خروش اور امید کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ تاہم افغانستان کی موجودہ سیاسی اور فوجی صورتحال میں یہ جوش و خروش بھی غیر ضروری اور قبل از وقت ہے۔ طویل جنگ کے دوران افغانستان میں تعمیر سے زیادہ تباہی دیکھنے میں آئی ہے۔ اتحادی افواج کو بھی اپنی ناکامیوں کا بخوبی اندازہ ہے تاہم ان ملکوں کی سیاسی قیادت اب پرامن انتخابات کے انعقاد کو اپنی کامیابی کی دلیل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔افغانستان کے مستقبل کا انحصار بہرحال اس بات پر ہے کہ فریقین کس قدر دانشمندی سے معاملات طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
طالبان کے علاوہ ملک میں متعدد مسلح جتھے موجود ہیں۔ ان وار لارڈز نے انتخابات کے دوران مختلف امیدواروں کا ساتھ دے کر ایک طرح سے انتخابی عمل کی تائید کی ہے۔ تاہم ملک کے نئے لیڈر کو طالبان سمیت تمام گروہوں کو سیاسی عمل کا حصہ بنانا ہو گا۔ اس طرح کسی بیرونی مداخلت کے بغیر کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز مطمئن ہو سکیں اور افغان عوام کو بالآخر امن نصیب ہو سکے۔ بصورت دیگر ایک نئی بھیانک خانہ جنگی کا آغاز ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔