بیجنگ (جیوڈیسک) چین کے شورش زدہ علاقے ژنجیانگ کے گورنر نور بیکری نے لکھا ہے کہ اسلامی عسکریت پسند شادیوں اور میتوں پر ہنسنے بولنے اور رونے پر پابندی لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ گورنر نے پیر کو ایک سرکاری روزنامے میں لوگوں سے درخواست کی کہ وہ شدت پسندی کی ‘رسولی’ ختم کریں۔ چین کا صوبہ ژنجیانگ کئی سالوں سے بدامنی کا شکار ہے اور حکومت علیحدگی پسندوں اور جنگجوؤں کو موردِ الزام ٹھراتی ہے۔ تاہم، انسانی حقوق کی تنظمیں اس بدامنی کی وجہ ژنجیانگ کو اپنا گھر ماننے والے اویغور مسلمانوں کی زبان، ثقافت اور مذہب پر چینی حکومت کی سخت پالیسوں کو قرار دیتی ہیں۔
اکتوبر میں بیجنگ کے تیانینمین سکوائر کے قریب ایک گاڑی کے زور دھماکے سے پھٹنے اور گزشتہ مہینے جنوب مغربی شہر کنمنگ میں انتیس افراد کو قتل کرنے جیسے واقعات کے بعد چین میں عسکریت پسندی کے حوالے سے بے چینی بڑھی ہے۔ خیال رہے کہ چین ان دونوں واقعات کا الزام ژنجیانگ کے عسکریت پسندوں پر عائد کرتا ہے۔ بیکری نے اپنے مضمون میں مزد لکھا کہ دہشت گردی کی یہ کارروائیاں اس لیے ممکن ہو سکیں کیونکہ شدت پسندوں نے لوگوں کے عقیدے کا فائدہ اٹھایا، بالخصوص نوجوانوں کے جنھوں نے بہت تھوڑی دنیا دیکھی ہے۔
‘جنونیت اکسانے اور عقیدت مندوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ان شدت پسندوں نے مذہبی تعلیمات کو مسخ کر دیا ہے۔۔۔’۔ ‘وہ اس کے ذریعے عقیدت مندوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو لوگ ان شدت پسندوں کے عقائد کو نہیں مانتے انہیں ‘غدار’ قرار دے کر مذمت کی جاتی ہے’۔ چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی ماضی میں شدت پسندی کو لے کر اسی طرح کی تنبیہ جاری کرنے کے علاوہ مشتبہ شدت پسندوں پر کریک ڈاؤن کر چکی ہے۔
اویغور روائتی طور ہر اعتدال پسند مسلمان تصور کیے جاتے ہیں لیکن ان میں سے کئی ایک نے سعودی عرب اور پاکستان میں رائج اسلامی اقدار اپنانا شروع کر دیے ہیں۔بیکری نے، جو خود بھی اویغور ہیں، شدت پسندوں پر خطے کی اپنی روایات کو نظر انداز کرنے اور سخت نظریاتی سوچ نافذ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ‘وہ ٹی وی دیکھنے، ریڈیو سننے، اخبار پڑھنے، ناچنے گانے شادیوں پر ہنسی مذاق اور جنازوں پر رونے پر پابندی کی کوششوں میں ہیں’۔
بیکری کے مطابق، شدت پسند مردوں کو داڑھیاں بڑھانے اور عورتوں کو نقاب پہنانا چاہتے ہیں۔