روز نامہ خبریں کو یہ منفر واعزاز حا صل ہے کہ اس نے تمام تبقہ ہا ئے فکر سے تعلق رکھنے والے افر اد کے نقطہ نظر کو اپنے سحا ت پر یکساں جگہ دی ہے۔ میر ا تعلق جنو بی پنجا ب کے خطے سے ہے جہا ں محر و میا ں اپنے با ل کھو لے بین کر تی ہیں ۔ یہی وہ جگہ ہے جہا ں سے خبر یں بڑے مطر اق سیشا ئع ہو نا اس کے معتبر ہو نے کی علا مت سمجھا جا تا ہے اور ضیا شا ہد صا حب کا یہ فر ما ن کتنا بر محل ہے کہ خبر یں کو جنو بی پنجا ب میں دیگر اخبا روں میں پیر جیسی حثیت حا صل ہے ۔میری رائے میں ضیا شا ہد صا حب وسیب کے محسن ہیں تو خبر یں وسیب کا واحد ترجمان سو اں حو الو ں سے کو ئی دو سرا اخبا ر خبر یں کی ہمسر ی کا دعو ی ہر گز نہیں کر سکتا۔
وسیب کی اسی دھر تی سے جنم لینے والے جنا ب ضیا شا ہد نے اپنی دھر تی ما ں اور اس کے بچو ں کی محر ومی کا نہ صر ج در د محسوس کیا بلکہ اس خطے کی آ واز کو ایک مو ثر صدا بنا کر ایو ان با لا تک پہچا نااپنا فر ض اولین گر وانا اور ئہی با ت خبر یں کی محبو بیت کی واحد وجہ بھی ہے۔ مجھے فخر ہے کہ سر ائیکی عو م نے اپنے محسن کو کبھی تنہا نہیں چھو ڑا ۔ اب جبکہ خبر یں اپنی اچا عت کے اکیس سا ل پورے کر رہا ہے اس مو قع پر میں اس اخبا ر کے چیف ایڈ یٹر جنا ب ضیا شا ہد ایڈ یٹر جنا ب امتنا ن شا ہد خبریں کی پو ری تیم اور قا ئین کو مبا رکبا د پیش کر تا ہو ں ۔ میں عد نا ن شا ہد کو اب تک نہیں بھلا پا یا اور نہ ہی کبھی علیم چو دھر ی کی خد ما ت کو فراموش کر پا ئو ں گا۔ مھے ان دو نو ں عظیم شخصیا ت کی عظیم خد ما ت کے اعر اف کے سا تھ سا تھ جنا ب ضیا شا ہد سے ان دو نو ں کی تعذ یت بھی کر نی ہے۔ دعا ہے اللہ پا ک عدنا ن شا ہد اور علیم چو دھری کو کر و ٹ کر وت جنت نصیب فر مائے۔ صفد ر عل حیدری ایک نیا نا م ہے۔ وسیب کے ھوالے سے ان کا اب تک آ کر ی کا لم تقسیم در تقسیم اگست میں شا ئع ہو ا۔ مجھے ان کا یہ کا لم بھی ان کے دیگر کا لمو ں کی طر ح بہت پسند آیا ۔ وہ بہا ول پور صو بے کے حا می دکھا ئی دیتے ہیں۔
عوا می تا ئید و رجا مند ی سے سر ا ئیکستان کے قیام کے بھی مخا لف نہیں ۔ یہ میر ے لئے ایک نئی با ت اس لئے بھی کی کہ ہما رے اکثر و سیبی قلم کا راپنے مخصو ص نقطہ نظر کے حو الے سے خا صے شد ت پسند دکھا ئی دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ افر اد کی اس ھو الے سے نو ک چھو نک اکثر ادارتی صفحا ت کی زینت بنتی رہتی ہے۔ بعض دفعہ اس میں معقو لیت کی کا فی کمی دکھا ئی دیتی ہے اس لئے مجھے اس طر ح کی بحثوں میں الجھنا یا قلم اٹھا نا کبھی بھی خو شگو رامر نہیں لگا ۔ چند رو ز قبل ایک بز رگ قلم کا عا شق بز دار کا مضمو ن تقسیم در تقسیم نہیں ایکتا اور اتحا د پڑ ھنے کا تفا ق ہو ا۔ یہ کا لم دراصل تقسیم در تقسیم کا جو اب تھا۔ میں اپنے خبر یں کی فا ئل سے 7اگست کا اخبا ر نکال کر اس کا لم کو ایک سے زیا دہ با ر بڑ ھا اور یو ں اس بحث میں حصہ لین کا فیصلہ کر تے ہو ئے میں نے قلم ا ٹھا لیا ۔ پنجا ب کی تقسیم کی بحث نئی ہر گز نہیں گز شتہ کئی عشروں سے اس پر علمی و عملی مید ان کمیں کا مجا ری ہے۔ اس حو الے سے وسیبی عو ام دو دھڑ وں میں تقسیم دکھا ئی دیتی ہے۔
بی جے پی کے ایچو پر وسیب کے ہر شہر سے ہونے والے احتجا ج نے اس تا ثر کو مذید واج کر ویا ہے۔ بہا ول پور کے عو ام عمو ما بہا ول پور صو بے کی ح امی ہے۔ جبکہ ملتا ن اور ڈی ضی خا ن کی عوام سر ائیکستا ن کی با ت کر تی ہے۔ اب یہ فیصلہ کر نا خا صہ مشکل کا م ہے کہ عو ام کی اکثر یت کس با ت کی احا می ہے۔ حتا ط اند از یت کے مطا بق دو نو ں کی تعد اد یں انیس بیس کا فر ق ہے۔ (اگر چہ اخبا ر ت کی حد تک سر ائیکستا ن کے حا می زیا دہ دکھا ئی دیتے ہیں کیو نکہ ان کے نقطہ نظر کو اخبا رات میں زیا دہ جگہ ملتی ہے۔) جب اکثر و بیشتر کا لم نگا ر مسلسل سر ائیکستا ن کی بابت لکھیں گے تو پڑ ھنے والے فطر ی طور پر یہ سو چنے پر ما ئل ہو ں گے کہ شا ہد وسیبی عو ام کی اکثر یت اسی خیال کی تا ئید کر تی ہے۔ ھا لا نکہ معر وضی ھا لا ت اس تا ثر کی سختی سے نفی کر تے ہیں۔
بہاول پور صوبے کی بحالی کی جدوجہد آئین پاکستان کے عین مطابق ہے۔ اور ماضی کی حکومتوں نے بھی ون یونٹ توڑنے پر بہاول پور کو صوبہ بنانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ فطری طور پر صوبہ بہاول پور کا مطالبہ آئینی اور اخلاقی ہر دو جواز رکھتا ہے۔جبکہ سرائیکستان کے سلسلے میں ایسا ہر گز نہیں۔ اب جبکہ صوبے کی اسمبلی جنوبی پنجاب کے دو یونٹ میں تقسیم کا بل دو تہائی اکثریت سے پاس کر چکی ہے۔ تو اصلی طور پر یہ بحث ہی ختم ہو جانی چاہیے۔کہ جنوبی پنجاب کی سرائیکی عوام کیلئے سرائیکستان کے نام پر ایک صوبہ بنا دیا جائے میرے خیال میں اب اس پر مزید اسرار رنا نہ صرف اخلاقی طور پر درست ہے اور نہ ہی آئینی طور پر ، لیکن سرائیکستان کے حامی اس خالص علمی مباحثے کو تھڑے کا موضوع بنا کر دھڑے بندی میں مصروف ہیں۔ یوں تقسیم در تقسیم کا سلسلہ مزید فروغ پا رہا ہے۔
Khyber Pakhtunkhwa
عاشق بزدار نے اپنے کالم میں ایک جگہ ایسی بات لکھی ہے جو دیوانوں کو بھی ہنسا دے فرماتے ہیں انتظامی بنیادوں پر صرف تحصیل اور ضلعے بنتے ہیں۔ جبکہ صوبے لسانی اور قومی لحاظ سے بندے ہیں۔ موصوف نے صفدر علی حیدری کو لا علم لکھا اور انکی تحریر و تجزیے کو ناقص معلومات کا پلندہ گردانا حالانہ انکی یہی ایک بات بخوبی ظاہر کرتی ہے۔ کہ صاحب سلامت کس قدر علمی و فطری پس منظر کی حامل شخصیت ہیں۔ کہیں دور کیوں جائیں۔ صوبہ سرحد کو دیکھ لیں کیا یہ لسانی یا قومی بنیادوں پر بنا تھا؟(یہ تو بعد کے کم فہم سیاست دان ہیں جنہوں نے اسے خیبر پختونخواہ کا لا یعنی سا نام دے دیا ہے۔ اور جب سے ایسا ہوا ہے صوبے کی زمین سونا اگل رہی ہے۔ اور آسمان سے ھن بر رہا ہے۔ جبکہ عوام چین کی بانسری بجا رہی ہے۔ ہمارے دانشور اور سیاست دان ایسے ایسے نظریات پیش کرتے ہیں کہ پتھر کے عہد کے انسان کو بھی اپنی تہذیب پر ناز ہونے لگے)آپ صوبہ پنجاب ہی کو لے لیں۔ اگر آپ کے بقول یہاں سرائیکی بولنے والوں کی اکثریت ہے تو پھر اسکا نام پنجاب کیوں رکھا گیا۔ یہ بھی ایک تاریخی بحث ہے ک ہ اسکا نام پنجاب پانچ دریائوں کے نام سے رکھا گیا۔ یا پنجابی زبان کی وجہ سے؟اور یہ بھی کہ پنجابی پانچ دریائوں کی وجہ سے پنجابی کہلائی یا پنجابی کی وجہ سے پنجاب کو پنجاب کہا گیا؟
اس پر مزید بحث کرنا ایسے ہی ہوگا جیسے مرغی پہلے آئی تھی یا انڈا تو اسے یہیں چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔ اور میرا لسانی دانشوروں اور سیاست دانوں کو یہ مخلصانہ مشور ہے کہ وہ اپنی سمت کو ٹھیک کر لیں اور بجائے سرائیکستان کے نام سے چھوٹے صوبے کے مطالبہ کے یہ مطالبہ پیش کریں کہ اس پورے صوبے کا نام سرائیکستان رکھ کر صوبائی صدر مقام ملتان کو بنا دیا جائے۔ (ویسے بھی ان لوگوں کا مسئلہ اور المیہ اصل میں ملتان کی مرکزیت ہی تو ہے۔باقی تو سب ڈرامہ ہے۔ نوٹنکی ہے)۔
فاضل مضمون نگار کو ہندوستان کے صوبوں کے ناموں پر غور کرنا چاہیے تا کہ وہ اپنی معلومات کو اپ ڈیٹ کر سکیں۔ساتھ ہی ساتھ افغانستان، ایران اور ترکی اور امریکا کے صوبوں کے ناموں پر اگر غور کر لیا جائے تو شرحِ صدر ہو جائے گی۔ امریکہ کی ریاست (صوبہ) لوئزیانا جس میں آئرش ، اکاڈین اور اطالوی نسل اور زبان والوں کی اکثریت ہے قلیل تعداد میں فرانسیسی، ھسپانوی، انگریز، جرمن اور افریسی زبان و نسل کے لوگ موجود ہیں۔ہمسایہ ملک بھارت میں رجستھان، اتر پردیش، پنجاب، ایران میں تہران اور افغانستان میں قندھار وغیرہ بھلا کسی قوم یا زبان کے نام پر رکھے وہئے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو دنیا آپ کی احسان مند ہوگی کہ آپکی وجہ سے مندرجہ بالا ملکوں کے صوبوں کے نام بھی زبانوں اور قوموں سے لوگ پہلی بار آشناہوںگے۔موصوف کی دیگر تمام لایعنی باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے میں ایک انتہائی تکلیف دہ امر کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ سرائیکستان کے اکثر حامی جب بھی سرائیکستان کی بات کرتے ہیں تو بہاول پور کے عباسیہ خاندان اور بہاول پور کی عوام کی حد درجہ تذلیل سے کبھی نہیں چونکتے یہی کچھ تاج لنگاہ کے آخر ی ٹی وی انٹرویو میں سننے کو ملا اور اب یہی سب کچھ فاضل بزرگ وار بھی فرما رہے ہیں۔ جنہیں عباسیہ خاندان کا کرداردھشت گردانہ لگتا ہے۔
کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ یہ سانی سیاست دان اور دانشور سندھ کے وڈیروں کے ساتھ بیٹھنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔جن کی نظریں ان وژیروں کی سیاہ کاریوں پر بھی نہیں اٹھیں نہ ہی قلم اٹھا اور تو اور یہ کلا باغ ڈیم کے پرجوش حامی کالا باغ ڈیم کے مخالفین کے ساتھ یار یاں بنانا انہیں ہر گز معیوب نہیں لگتا۔ کچھ لوگوں کاالمیہ یہ بھی ہے۔ کہ وہ ماضی کی دلدل میں غرق ہوکر پدرم سلطان بود پکار نے میں دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ اتنا بھی نہیں جانتے کہ جو آج ہے وہی سچ ہے، سو حال کے یہ غافل صفدر علی حیدری کے الفاظ میں صاحب حال نہ ہوںتو ان کا حال دیکھنے والا ہوتا ہے۔اور اتفاق کی بات ہے کہ یہ ہم دیکھتے بھی ہیں جن کا حال نہ ہو ان کا صرف ماضی ہوتا ہے۔ اور مستقبل تو قطعاً نہیں ہوتا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے یہ دانشور اور سیاست دان اس بات کا کریڈٹ بڑے فخر سے لیتے ہیں کہ وہ اتحاد کی بات کرتے ہیں اور وسیب کی تقسیم کے خلاف ہیں اور اگلے ہی لمحے یبہاول پور کے عباسیہ خاندان اوعر انکے چاہنے والے تمام ریاستی افراد کو تضحیک کا نشانہ بناتے ہوئے نہیں چونکتے ۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔ کیا گالیاں کھانے والے انہیں ہار پہنائیں گے۔آپ ہی ایمانداری سے بتائیں کہ پنجاب اشرافیہ اور ان لوگوں میں کوئی فرق ہے۔ وہ بھی تقسیم کے مخالف یہ بھی تقسیم کے مخالف۔ حالانکہ انکی بات بات سے تقسیم کی بو آتی ہے۔ یہ زمین کی بجائے دلوں کو تقسیم کرنے والے لوگ ہیں۔ میں اس سعی نامشکور کی پرزور مذمت کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں۔ کہ میںذاتی طور پر ان حرکت کی مخالفت میں اپنی تمام ترتوانائیاں صرف کروں گا۔ اس بات کا رونا رونے والے کہ بہاول پور ملتان کا حصہ تھا یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ صدیوں پرانی بات ہے۔
اگر یہی اصول مان لیا جائے تو آپکا موجودہ پاکستان سندھ کہلاتا تھا اور بھارت کو ہند کہا جاتا تھا۔ آپ ایسا کریں اس پورے علاقہ کو سندھ میں شامل کر لیں اور اس پورے خطے کا نام ہی سندھ رکھ لیں مجھے تو ان لوگوں کی یہ سوچیں اکھنڈ بھارت کی ہندوانہ سوچ کی کاربن کاپی لگتی ہیں۔ حضور والا آپ اکسیویں صدر میں سانس لے رہے ہیں جہاں مسائل پہلے ہی عوام کا جینا دو بھر کر چکے ہیں آپ اپنی دانشوری کی دکان چمکا کر عوام کی پریشانی میں مزید اضافہ مت کیجئے۔ ماضی کے کوڑے دان سے نکل کر آنکھیں کھولیں اور عصری سچائیوں کا کھلے دل سے اعتراف کریں ورنہ بہائو کی الٹی سمت کی تیراکی آپکو بہاکرماضی کی دلدل میں غرق کر دیگی۔ اقبال نے ٹھیک ہی تو لکھا ہے۔ وہ قوم نہیں لائق ہنگامہء فردا جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے ماضی پرستی چھوڑیں اور حق پرستی اپنائیں اسی میں آپ سمیت سب کا بھلا ہے۔
تقسیم در تقسیم میں صفدر علی حیدری نے آغاز میں ایک لطیفہ نما واقعہ درج کیا ہے۔ جسے اس کالم کا حسن کہنا بے جا نہ ہوگا۔انہوں نے بڑی چالاکی سے سرائیکستان کے حامیوں کو جھوٹا خدا اور بہاول پوری سیاست دانوںکو جھوٹا نبی کہہ کر ہر دو طبقات کے مکروفریب کی کلی چاک کر دی ہے۔ ایک طرف تقسیم کے مخالف ہیں تو دوسری طرف توسیع کے مخالف اور عوام بیچاری بادشاہ گر ہونے کے باوجود ان بازی گروں کے ہاتھوں پامال ہوتی آئی ہے۔ اور جو بادشاہ ہے اسے بھی اپنے اقتدار کی حوس ان دونوں کی مخالفت پر مجبور کرتی ہے۔ ورنہ یہ تینوں طبقات مل کر عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔یہ لطیفہ جہاں دلچسپ ہے وہیں یہ امر حیرت انگیز ہے کہ عاشق بزدار کو کالم کے مندرجات سے ہم آہنگ نظر نہیں آتا یہ بات لطیفہ سے کہیں بڑا لطیفہ ہے۔ جہاں محض مخالفت برائے مخالفت کے جذبے سے قلم اٹھایا جائے گا تو وہاں ایسی بد حواسیاں تو ضرور دیکھنے کو ملیں گی۔
عاشق بزدار کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی کہ صفدر علی حیدری بہاول پور صوبہ کی حمائیت کیوں کرتے ہیں۔ اور اسی بات نے ان کو جوابی کالم لکھنے پر اکسایا عاشق بزدار کے بقول کیونکہ لطیفہ کالم سے ربط نہیں رکھتا ۔ سو یہ ٹیڑھی اینٹ ہے جس پر کالم کی عمارت کھڑی ہے۔جواباً عرض کروں گا کہ صاحب آپ نے بالکل بجا فرمایا لطیفہ تو خیر باربط ہے ہاں آپ لوگوں کے خیالات ضرور بے ربط ہیں۔ اور عوامی تائید سے یکسر محروم بھی اسی بات کو عامر حسینی نے بھی اپنے عالیہ کالم میں تسلیم کیا ہے کہ سرائیکی ایشو عام کی جڑوں میں پیوست نہیں ہے۔(سو آپ نے جو سرائیکستان کی جو عمارت کھڑی کی ہے وہ بھی ٹیڑھی اینٹ پر کھڑی ہے اور آخر تک ٹیڑھی ہے۔ کاش میری فارسی اچھی ہوتی تو میں عاشق بزدار کا لکھا فارسی شعر سرائیکستان اور اس کے حامیوں کی نظر ضرور کرتا۔ سیانے سچ کہہ گئے ہیں آپ سر کے بل کھڑے ہوں تو منظر کبھی سیدھا نہیں ہو سکتا۔جبکہ تک کہ دنیا کو الٹا نہ دیا جائے۔ اور دنیا کو الٹانا آسان ہے مگر کسی ضدی کو سیدھا کرنا بہت مشکل ہے۔