آدھی رات کا وقت تھا لوگ گھروں میں آرام کر رہے تھے ماحول پر ایک ہو کا عالم طاری تھا اندھیرااتنا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہ دے رہاتھا بیشتر گھروں میں تاریکی تھی غالباً زیادہ تر لوگ سو گئے تھے اکا دکا گھروں میں زردی مائل روشنی بکھری ہوئی تھی اس عالم میں ایک باوقار شخص ،نورانی صورت ،چہرے پر سختی نمایاں، شکل و صورت ایسی کہ انہیں دیکھ کر ایمان تازہ ہو جائے وہ مختلف گلیوں اور بازاروں سے ہوتے ہی ایک مکان کے آگے رک گئے روشندان سے باہر جھانکتی روشنی سے محسوس ہو رہا تھا کہ دیا ٹمٹا رہاہے کھڑکی سے باتیں کرنے کی مدہم مدہم آوازیں آرہی تھی نورانی صورت والے نے کان کھڑکی کے ساتھ لگا دئیے کوئی لڑکی اپنی والدہ سے کہہ رہی تھی۔
”ہم کب تک فاقے کرتے رہیں خلیفہ کو اپنا حال بتانے میں کیا امر مانع ہے؟ میں عمر کو کیوں بتائوں؟ بوڑھی عورت استکامت سے بولی وہ خلیفہ بنے ہیں تو انہیں ہماری خبرہونے چاہیے لڑکی اپنی والدہ کو پھر سمجھانے لگ گئی۔۔۔ان کی باتیں سن کر کھڑکی سے کان لگائے نورانی صورت والا کانپ کانپ گیا۔۔۔
اس نے بے اختیار دروازے پر دستک دیدی ۔۔۔ اس وقت۔۔ کون ؟ اندر سے ڈری۔۔ سہمی آواز میں کسی نے پوچھا گبھرائیں مت۔۔۔نورانی صورت والے نے بڑی متانت سے جواب دیا میں عمر کی طرف سے آیا ہوں ۔
دروازہ کھلا خاتون نے اسے اندر آنے کی اجازت دی اس نے خاتون کی خیریت اور حال احوال دریافت کیا لڑکی کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اس نے فرفر انہیں اپنے فاقوں کااحوال کہہ ڈالا عمر کی طرف سے میں معذرت چاہتا ہوں۔نورانی صورت والے نے بڑے رقت آمیز لہجے میں خاتون کو کہا۔۔ لیکن اسلامی سلطنت بڑی ہے وہ کہاں کہاں توجہ دیں ؟جواب میں خاتون نے وہ بات کہہ ڈالی جس کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی ۔۔۔” عمر اگر توجہ نہیں دے سکتا تو اتنی فتوحات کیوں کئے جارہا ہے؟رب کو کیا جواب دے گا۔
”ماں جی ! ۔نورانی صورت والا کہنے لگا ” عمر کو معاف کر دیں کیوں۔۔۔ معاف کردوں ؟خاتون نے جواب دیا وہ کون سامیری خبر گیری کو آیا ہے ماں جی۔۔ نورانی صورت والے نے مضطرب ہوکر پہلو بدلا۔۔اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اس نے اٹک اٹک کر کہا میں ہی عمر ہوں۔۔۔۔ وہ شخصیت جس کے نام سے قیصرو کسریٰ جیسی عالمی طاقتیں تھر تھر کاپتی تھیں ایک عام خاتون کے سامنے جوابدہ اندازمیں کھڑے تھے خاتون کے چہرے پر قوس قزح کے کئی رنگ بکھر کئے بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی بولی اگر تم عمر ہو تو مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں دیر سے آئے ہو لیکن کوئی بات نہیں مسلمانوں کا خلیفہ ایسا ہی ہونا چاہیے جو راتوں کو جاگ جاگ کر لوگوں کی خبر گیری کرتا رہے۔۔۔
Suicide
اسی جلیل القدر کا ایک قول ہے ” اگر دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو قیامت کے روز خدا کے حضور عمر جوابدہ ہو گا” دنیا آج تک حکمرانی کا ایک دعویٰ۔ ایسا منشوراور ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے دنیا جہاں کی غیر مسلم حکومتیں آج بھی حضرت عمر کے دور ِ حکومت پر ریسرچ کر کے اپنے شہریوں کو ریلیف دے رہی ہیں اس کے بر عکس ہماری کی حالت ہے ہم کیا کر رہے ہیں ؟ایک فاضل جج کے ریمارکس پڑھئے شاید حالات کی سنگینی کا اندازہ ہو جائے ” حکمرانوں کے کتے مربے کھا رہے ہیں۔
اربوں کی زمینیں اونے پونے فروخت کی جارہی ہیں کروڑوں روپے کے میلے ٹھیلے سجائے جارہے ہیں غریب آدمی کو سستا آٹا نہیں دے سکتے تو چوہے مار گولیاں ہی دیدیں عوام کو اس طرح مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔۔۔یہ ریمارکس تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دئیے۔۔۔انہوںنے یہ بھی کہاجمہوری حکومت عام آدمی کو سستا آٹا بھی فراہم نہیں کر سکتی تو اس کے اقتدار میں رہنے کا کیا جواز رہ جاتاہے ،خواتین اپنے بچے فروخت کر رہی ہیںلوگ خودکشیاں کر رہے ہیں حکومت نے اناج کی قیمیتں اتنی بڑھادی ہیںکہ عوام الناس بہت پریشان ہیں وفاق اور صوبے جان لیں کہ جب اور جہاں بنیادی انسانی حقوق اورآئین و قانون کی خلاف ورزی ہوگی سپریم کورٹ ہر حال میں ضرور مداخلت کرے گی اور کسی کو معاف نہیں کرے گی۔فاضل جسٹس کی باتیں ہر غریب کے دل کی آوازہے اور ایک جمہوری حکومت کیلئے لمحہ ٔ فکریہ بھی۔۔۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غریبوں کی خبر گیری کا تو سرے سے رواج ہی نہیں۔۔
کوئی حکومت اس طبقہ کیلئے کچھ کرنا بھی چاہتی ہے ”تو کاریگر”اسے اپنیذاتی مفاد کیلئے مخصوص کرلیتے ہیں طریقہ ٔ کار اتنا پیچیدہ بنا دیا جاتا ہے کہ غریبوں کیلئے بنائی گئی سکیموںسے غریب فائدہ بھی اٹھانا چاہیں تو نہیں اٹھا سکتے ۔۔۔موجودہ حکومت نے بھی عام آدمی کی بھلائی کیلئے اپنی خوشنما ترجیحات کااعلان کر رکھا ہے لیکن اس سے کوئی تبدیلی آ سکتی ہے نہ آئے گی۔۔۔میاں نواز شریف کے جذبات دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے وہ واقعی ملک وقوم کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں اگر وہ” دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو قیامت کے روز خدا کے حضور عمر جوابدہ ہوگا”کو اپنی حکومت کا ماٹو قراردیکراس کی روشنی میں حکمت ِ عملی تیار کریں تو اس سے بہتوںکا بھلاہوگا حکومت کے پاس درجنوں خفیہ ایجنسیاں ہیں کسی ایک ایجنسی کو پاکستان کی ہر فیملی بارے حقیقی سروے تیار کرنے کی ہدایت جاری کی جائے جو یونین کونسل سطح پر ان کے وسائل ،ضروریات اور دیگر امورکی مکمل چھان بین کرے جوکسی کاروبار،روزگار یا کسی ملازمت کے اہل ہوںان کو بلا امتیازکسی رشوت یا سفارش اورگارنٹی کے بغیر وسائل مہیا کئے جائیں اس سے نہ صرف معاشرہ میں مثبت تبدیلی آئے گی بلکہ روزگارکے مواقع بھی بڑھیں گے۔
کیونکہ اکثر غریبوں کو قرضے لینے کے لئے کوئی گارنٹر ہی میسر نہیں آتا جس کی وجہ سے وہ کسی بھی حکومتی سکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے عام آدمی کی حالت ِ زار بہتر بنانے کیلئے یہ پروگرام مرحلہ وار بھی شروع کیا جا سکتا ہے جن شہروں میں غربت کی شرح زیادہ ہے وہاں ترجیحی بنیادوں پر ایسی سکیمیں جاری کی جا سکتی ہیںسب سے اہم بات یہ ہو گی کہ صرف حقداروں کو ان کا حق ملے گا یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ غریبوں کو ملنے والے قرضوںکی واپسی کی شرح قریباً90% تک ہے جبکہ موٹی رقموںکے بڑے بڑے قرضے یا تو معاف کروا لئے جاتے ہیں یا بیشتر کمپنیاں دیوالیہ ہو جاتی ہیں عام آدمی کو خود روزگار کے قرضے دینے سے حکومت کے وسائل جو اکثر ضائع ہو جاتے ہیں مفید ہاتھوں میں جانے سے ملک میں حقیقتاً انقلاب بپا ہو سکتا ہے یقین جائیے رشوت، شفارش اور کرپشن فری سکیمیں ملک کو ایک فلاحی مملکت بنانے میں بے حدممدو معاون ہو سکتی ہیں ملک میں خوشحالی آگئی تو کسی فاضل جسٹس کو یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ غریب آدمی کو سستا آٹا نہیں دے سکتے تو چوہے مار گولیاں ہی دیدیں۔