نوجوانوں میں خود کشی کا رجحان

Wedding Shopping

Wedding Shopping

ذرناب! میں مارکیٹ جا رہی ہوں، تمہاری شادی کی شاپنگ کرنے۔ میری واپسی تک گھر صاف کر لینا، برتن دھو لینا، کھانا بنالینا۔ ذرناب کی امی اسے مسلسل حکم دیے جا رہی تھیں اور یہ روز کا معمول تھا۔ اب جب کہ اس کی شادی سر پہ تھی، اُن کی سختی پھر بھی کم نہ ہوئی تھی۔ ذرناب نے آخر اس دن اپنی چپ توڑ کر کہہ ہی دیا، ”امی! ہیں تو آپ میری سگی ماں مگر سلوک سوتیلی جیسا کرتی ہیں۔” امی جو گیٹ پہ جانے کے لیے تیار کھڑی تھیں، بولیں، صبر کر…. تو مجھے آج واپس آنے دے۔ وہ تو یہ کہہ کر چلی گئیں اور جب واپس آئیں تو ان کی بیٹی جس کی شادی کے شادیانے بجنے والے تھے، اپنے ہی ہاتھوں اپنی جان لے کر خوشی کے گھر کو ماتم کدہ بنا چکی تھی۔ خودکشی کے واقعات روز با روز بڑھتے جارہے ہیں، جن میں کچھ تو اخبار کی سرخی میں جگہ بنا لیتے ہیں اور زیادہ تر اخبار تک پہنچنے سے محروم رہتے ہیں۔ خودکشیوں کے ان واقعات میں زیادہ تر تعداد نوجوان طبقہ کی ہے۔

ایک سروے کے مطابق نوجوانوں میں خودکشی کی زیادہ تر وجوہات ”محبت” ہے۔ یعنی محبت میں ناکامی یا پھر دھوکے کی صورت میں متاثرہ فرد اپنی جان کو بے کار سمجھنے لگتا ہے اور آخر کا رکچھ روز کے بعد وہ خودکشی کر کے خود کو ختم کردینے کو ترجیح دیتا ہے۔ مگر اس میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ہے کہ جو گھریلو مسائل، والدین یا سرپرست کی بے جا سختی، ڈانٹ ڈپٹ سے تنگ آکر یہ گھنائونی حرکت کرتے ہیں، جبکہ ایسے نوجوان بھی شامل ہیں جو کہ اپنے تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے گھر والوں کے ڈر، معاشرے کی شرمندگی اور مستقبل کے تباہ ہونے کی خدشے کی پیش نظر موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ خیر خودکشیوں میں اور بھی کوئی وجوہات ہیں جو سبب بنتی ہیں جن کو بیان کرنا محال ہے۔ یہاں پر ایک بات کو نظر انداز کرنا بھی درست نہیں ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں کچھ تو خود کشیاں ہوتی ہیں اور کچھ مخالفین کے عتاب کا نشانہ بنانے کے بعد خودکشی کا رنگ دیا جاتا ہے۔

محبت کی وجہ سے ہونے والی خودکشیاں عام پر طور مرضی کے مطابق شادی نہ کرنے، یا پھر دو محبت کرنے والوں میں کسی وجہ سے جدائی یا دھوکا ہوتا ہے۔ مغربی معاشرے میں عورت کو ضرورت سے زیادہ آزادی دی گئی ہے جس سے بہت نقصان دیکھنے میں آرہے ہیں۔ تاہم مشرقی ثقافت میں کسی عورت یا مرد کا اپنی مرضی کرنا معاشرتی طور پر غیر اخلاقی حرکت شمار کیا جاتا ہے۔ جس کے کچھ حد تک فائدہ بھی ہیں تاہم اس کے نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ شادی جیسے اہم معاملے میں بھی ان کی مرضی کو نظرانداز کیا جاناجو مختلف جرائم کو جنم دیتا ہے۔ خودکشی بھی انہیں بے جا اور غیر ضروری پابندیوں کا ایک نتیجہ ہے۔

ہماری نوجوان نسل میں عدم برداشت اور غصہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ غصہ ایسی بیماری ہے کہ جس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہوجاتی ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر ناجانے کیا کچھ ہوجاتا ہے اور یہیں وہ غصہ ہے کہ جو انتہائی خطرناک صورت اختیار کر جاتا ہے۔

یہ وہ غصہ ہوتا ہے کہ جس کا حل ہماری نوجوان نسل موت کی آغوش میں سوجانا ہی سمجھتی ہے۔ بظاہر ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ خود کو تو دنیا کے ہر مسئلے سے آزاد کر لیتی ہے مگر جو زندہ ہیں ان کے لیے ہزاروں مسائل کھڑے کر جاتی ہے۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ غیور لوگ مرا (خودکشی) نہیں کرتے بلکہ مار دئیے جاتے ہیں۔

نوجوان طبقے میں بھی خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہوتی۔
خودکشی کا عمل مایوسی کی انتہا سے رونما ہوتا ہے۔ معاملہ اگرچہ کچھ بھی ہو مگر لوگوں کے ذہن کی سوئی اسی ایک پوائنٹ ”معاملات کچھ ٹھیک نہیں تھے” پر اٹکی ہوتی ہے۔ خاص طور پر یہ لڑکی ہی کی خود کشی کے موقعے پر کہا جاتا ہے۔لڑکی تو اپنی جان لے کر ایک طرف ہو جاتی ہے مگر وہ یہ نہیں سوچتی کہ اس نے اپنی اس حرکت سے اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں بلکہ پورے خاندان کو کس اذیت سے دوچار کیا ہے۔ وہ لوگوں کا سامنا کیسے کریں گے؟ وہ کس کس کو ان کے کس کس سوال کا جواب دیں گے؟ وہ لوگوں کی طنزیہ نظریں کیسے برداشت کر پائیں گے؟

Suicide

Suicide

خودکشی کرنے سے قبل لڑکیاں یہ بھی نہیں سوچتیں کہ جس طرح پھول اپنی لطافت کے لیے، چڑیاں چہچہانے کے لیے، چٹانیں مضبوطی کے لیے اور سمندر وسعت کے لیے ہوتا ہے، اسی طرح وہ اپنے بابل کے آنگن کی خوشیاں بڑھانے کے لیے، ان کا سر فخر سے بلند کرنے کے لیے ہوتی ہیں ،نہ کہ ان کی عزت خاک میں ملانے، انہیں شرمندہ کرنے، ان کی نظریں اور سر جھکانے کے لیے۔ بیٹیوں کی غلط حرکت کے بعد ماں باپ ایک ایک پل میں ہزار بار مرتے اور ہزار بار جیتے ہیں۔ ایک بار مرنا توآسان ہوتا ہے مگر روز روز، تڑپ تڑپ کر جینا بہت مشکل۔ بیگانے تو بیگانے اپنے بھی انہیں طرح طرح سے چوٹ پہنچانے سے گریز نہیں کرتے بلکہ اس طرح کے تکلیف دینے والے معاملات میں پیش پیش رہتے ہیں۔ شاید ایسے ہی موقعے کے لیے کہا جاتا ہے کہ دشمنوں کے پتھر بھی اتنی چوٹ نہیں پہنچاتے جتنی اپنوں کے پھول۔

خودکشی کو ہمارے دین میں حرام قرار دیا گیا ہے اور ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی یہ قابل مذمت فعل سر انجام دینے سے گریز نہیں کرتے۔ جب کہ انگلینڈ ایسا ملک ہے جہاں خود کو ہلاک کرنے کی کوشش کرنے والے کی سزا موت ہے۔ مایوسی تو کفر ہے پھر ہم کیوں جان بوجھ کرخود کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیلتے ہیں؟

آج ہمارے ملک کے حالات بد سے بد تر ہو رہے ہیں، ایسے میں ہر لڑکی کو اپنی حفاظت خود کرنی ہے۔ یہاں انسانوں کے روپ میں بھیڑیے جگہ جگہ دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں جو موقع کی تاک میں ہوتے ہیں کہ کب انہیں موقع ملے اور وہ اپنے شکار پر جھپٹیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم انہیں وہ موقع دیتے ہیں جسکی وہ تلاش میں ہیںیا خود کو بچاتے ہیں۔ آج ہم خود کو اس قدر کمزور ثابت کر رہے ہیں کہ جیسے ہماری عقل اور سوچ ہی نہیں؟؟

اگر کوئی ہنس کر بات کر لے تو ہم اس کو اپنے خیالات میں جگہ دینے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ ایسا کب ممکن ہے کہ کسی سے دوجملوں کا تبادلہ ہوتے ہے محبت کا سلسلہ شروع ہوجائے اور پھر اس محبت کی ناکامی میں خود کو سزا دینے کے لئے خودکشی کا سہارا ڈھونڈا جائے۔ ہمیں خودکشی جیسے ماحول کو پیدا ہونے سے بچانے کے لئے فضول اور نام نہاد محبت کے دعوے کرنے والوں سے خود کو بچانا ہوگا۔ اب ایسا تو ممکن نہیں ہے کہ بنا سہارے کہ ہم کچھ بھی نہ کریں یا گھر سے نکلنا چھوڑا دیاجائے؟

حادثے کی زد پہ ہیں تو مُسکرانا چھوڑ دیں
زلزلوں کے خوف سے کیا گھر بنانا چھوڑ دیں

Parents

Parents

آخر کب تک ہمارے والدین، ہمارے بھائی ہمیں انگلی پکڑ کر لے کے چلیں گے؟ کب تک ہم سہاروں کی تلاش میں رہیں گے اور اپنے بل بوتے پر کچھ نہیں کریں گے؟ ہمارے دین نے جہاں ہمیں آزادی دی ہے وہیں ہم پر کچھ پابندیاں بھی عائد کی ہیں تاکہ معاشرے میں بگاڑ پیدا نہ ہو۔ ہمیں اپنی حدود میں رہ کر، سوچ سمجھ کر ہی کوئی قدم اٹھانا چاہیے تاکہ آنے والی ممکنہ پریشانی سے بچا جا سکے۔ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوتا ہے بس تھوڑی سی ہمت، حوصلے اورحاضر دماغی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خودکشی کرنے سے مسائل حل نہیں بلکہ اور گھمبیر ہوجاتے ہیں۔ حوصلہ پست کرنے سے مد مقابل دشمن اور مضبوط ہوتا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مرنے کے بارے میں سوچنے کی بجائے جینے کے انداز بدل دیے جائیں۔ اور ایسے انداز اپنائے جائیں کہ لوگ دھنگ رہ جائیں اور آپ کو دیکھ کر کوئی دوسرا بھی مایوسی کے اندھیروں سے نکل آئے اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہمت اور حوصلے سے کرے۔

تحریر: صفورا نثار، کراچی