بھارت کی آٹھ لاکھ فوج جہاں مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر کے نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھار ہی ہے۔ خواتین کی بے حرمتی، بچوں ، نوجوانوں و بوڑھوں پر تشدد اور ان کی عزتوں و حقوق کو پامال کیاجارہا ہے وہیں مقبوضہ کشمیر کے وسائل کو بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر دنیا کا ایسا واحد متنازعہ علاقہ ہے جہاںاتنی بڑی تعداد میں فوج موجود ہے اور بھارتی فوج یہاں اپنا ناجائز قبضہ مستحکم کرنے کیلئے ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی فوج کم کرنے کی بجائے آئے دن اس میں اضافہ کر رہا ہے۔
بھارتی فوج نے سکولوں، دفاترو سرکاری بلڈنگوں پر قبضے کر رکھے ہیں تو دوسری جانب زرعی و باغاتی زمینوں، سیاحتی اور تمام صحت افزا مقامات پر بھی فوجی چھائونیاں قائم کر کے نہتے کشمیریوں کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں۔جموںکشمیر میں اس وقت 71,500ایکڑ زمین پر بھارتی فوج نے جبری قبضہ کر رکھا ہے۔گلمرگ، ٹنگمرگ، سونا مرگ او رپہلگام جیسے بہت سے علاقے ہیں جہاں کشمیریوں کے شدید احتجاج اور شہادتوں کے باوجودبھارتی فوج اپنی چھائونیاں اور بنکرز ختم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔صرف گلمرگ کا وہ علاقہ جو معروف سیاحتی مقام ہے صرف وہاں 1360کنال اراضی پر فوج نے غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ بھارتی فورسز منظم منصوبہ بندی کے تحت یہاں کے صحت افزاء مقامات کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت زیر استعمال لا کر ان کی اہمیت اور افادیت ختم کر رہی ہیں۔ سرکاری سرپرستی میں درختوں کے کٹائو، بڑے پیمانے پر لکڑی کی سمگلنگ اور جنگلات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی عدم توازن پیدا کیا جا رہا ہے ۔ فوج کے ان علاقوں کے فائرنگ رینج میں ہونے کی وجہ سے آئے دن انسانی جانوں کا زیاں ہو رہا ہے ۔
ماضی کے کچھ عرصہ میں شہادتوں کا جائزہ لیا جائے تو صرف توسہ میدان میں ہی اب تک فوجی مشقوں کے دوران 67 بے گناہ کشمیری اپنی جانیں کھوچکے ہیں۔بھارتی فورسز یہاں وقفے وقفے سے توپ خانوں کی مشقیں کرتی رہتی ہیں ۔ اس عمل کے دوران فائر کئے جانے والے بعض گولے کبھی کبھی پھٹنے سے رہ جاتے ہیں جو بعد میں انسانی زندگیوں کے ساتھ ساتھ بکروال قبیلوں کے ان مویشیوں کیلئے بھی جان لیوا ثابت ہو تے ہیں ۔ توسہ میدان کا ملحقہ علاقہ ویسے بھی اقتصادی طور ریاست کا بہت کمزور ہے اور یہاں کے لوگوں کی ایک بڑی آبادی غربت اور مفلسی کی زندگی گزاررہی ہے۔ بھارتی فوج کی یہاں موجودگی سے ان کی نقل و حمل بہت محدود پیمانے کی رہ گئی ہے جس وجہ سے ان کی مشکلات میںکئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
توسہ میدان میں بھارتی فوج نے 6500کنال اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے اور اب جبکہ اس وسیع و عریض اراضی جو لیز پر حاصل کی گئی تھی اس کی مدت اسی ماہ اپریل میں ختم ہو رہی ہے بھارتی فوج مزید تین ہزار ایکڑ اراضی اپنی تحویل میں لینا چاہتی ہے جس پر حریت کانفرنس (گ)، حریت کانفرنس (ع)، جے کے ایل ایف، دختران ملت، فریڈم پارٹی جموں کشمیراور دیگر کشمیری جماعتیں اور پوری کشمیری قوم سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ اس سلسلہ میں ہفتہ کو پورے کشمیر میں زبردست ہڑتال کی گئی اور زبردست احتجاجی مظاہرے کئے گئے جس میں بھارتی فوج، سی آر پی ایف اور پولیس کے بدترین تشدد سے درجنوں افراد زخمی ہو گئے۔ بھارتی فورسز کے سخت سکیورٹی انتظامات کے باوجود تاریخی ہڑتال اور احتجاجی مظاہروںمیں کشمیری قوم کی بھرپور شرکت سے ثابت ہو تا ہے کہ وہ اس معاملہ میں کس قدر حساس ہیں اور بھارتی فوجی قبضہ کو کسی صورت برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ توسہ میدان اراضی کوبھارتی فوج نے 1964ء میں 50 سال کے لئے لیز پر حاصل کیا تھا۔اگر اسے خالی کر دیاجاتا تو یہ نہ صرف علاقے کے لوگوں کے لئے معاشی ذرائع پیدا ہونے میں مددگار ثابت ہوتے بلکہ اس علاقے کی خوبصورتی کی وجہ سے یہاں سیاحت کو بھی فروغ ملتا اورمقامی لوگوں کی مالی حالت بہتر بنانے کا ایک ذریعہ بن جاتا۔
Indian Army
بھارتی فوج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں ایکڑ اراضی پر قبضوں کے خلاف بعض ممبران نے کشمیر اسمبلی میں آواز اٹھائی تو جموں کشمیر کے وزیر مال رمن بھلہ نے ایوان کو تحریری طور پرآگاہ کیا کہ وادی کشمیر کے مختلف اضلاع میں بھارتی فوج اور ایجنسیوں نے 25957 کنال اراضی پر ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔وادی کے شمالی ضلع بارہمولہ میں سب سے زیادہ یعنی 9314 کنال اور 15 مرلہ اراضی بھارتی فورسز کی مختلف ایجنسیوں کے غیر قانونی قبضے میں ہے۔سرینگر ضلع میں 74 کنال اراضی، اسلام آباد(اننت ناگ) میں 5449 کنال اراضی، کولگام ضلع میں 691 کنال، شوپیاں میں 487 کنال،پلوامہ ضلع میں 1320 کنال،بانڈی پورہ ضلع میں 5065 کنال 13 مرلہ، کپواڑہ میں 2069 کنال، وسطی ضلع بڈگام میں 821 کنال 14مرلہ اراضی، گاندربل میں663 کنال 18 مرلہ، جموں میں 32532 کنال 10 مرلہ ، کٹھوعہ میں 795 کنال 19مرلہ ،کشتواڑ میں 198 کنال 16 مرلہ،پونچھ میں 7996 کنال ، راجوری میں 2858 کنال 12 مرلہ ، رام بن میں 74 کنال 19 مرلہ،ریاسی میں 341 کنال 16مرلہ اور سانبہ میں 2762 کنال 18 مرلہ اراضی بھارتی فوج ، بی ایس ایف، انڈو تبتین بارڈر پولیس، سی آر پی ایف اوردیگر ایجنسیوں نے غیر قانونی طور اپنے قبضہ میں لے رکھی ہے۔بھارت سرکار کی ہٹ دھرمی کا عالم یہ ہے
اس کے وزیر دفاع اے کے انتھونی سے لوک سبھا میں جب یہ سوال کیا گیا تو بھارتی وزیر دفاع نے تسلیم کیا کہ جموں و کشمیر میں 570133 کنال اراضی قابض فوج کی تحویل میں ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کے 6 اضلاع میں انڈین فوج کی تحویل میں کل ملاکر 56221.2 کنال اراضی ہے جبکہ جموں کے 8 اضلاع میں کل ملا کر فوج کی تحویل میں 209239 کنال اراضی ہے اور اس کیلئے وزارت دفاع باضابطہ طور پر مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کو کرایہ اور معاوضہ ادا کررہی ہے۔ بھارتی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ وہ زرعی اور غیر زرعی زمینوں کے حساب سے کرایہ ادا کر رہی ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ باتیں سراسر جھوٹ اور فراڈ پر مبنی ہیں اور محض دنیا کو دھوکہ دینے کیلئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ساری صورتحال کی سب سے زیادہ ذمہ داری مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت اور بھارت نواز سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے جو اپنے ذاتی فائدے کی خاطر نہ صرف بھارتی فوجی قبضہ کی راہ ہموار کرتے ہیں بلکہ بھارتی فوج کی درندگی اور وسائل اور زمینوں پر قبضہ کے اصل حقائق کو بھی عوام کے سامنے نہیں آنے دیتے۔
مقبوضہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کے حوالہ سے اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیںوہاں غاصب بھارتی فوج کو زبردستی طاقت و قوت کے بل بوتے پر زرعی وباغاتی زمینوں اور سیاحتی مقاما ت پر قبضوںکی قطعی طور پر اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ بھارت سرکار ایک طرف تو کشمیر میں سیاحت کے کاروبار کو وسعت دینے کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے جبکہ دوسری طرف اس کی اپنی فوج سیاحتی مقامات پر قبضے کر رہی ہے اور کٹھ پتلی حکومت سے بھی پوچھنا گوارا نہیں کرتی اور جہاں چاہتی ہے فوجی چھائونیاں اور بنکر بنانا شروع کر دیتی ہے۔ بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں فوجی قبضہ سے سیاحتی مقامات کی اہمیت ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔
United Nations
ہم سمجھتے ہیں کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس ساری صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے اور بھارتی فوج کے غیر قانونی قبضہ کو ختم کرنے کیلئے بھارت پر دبائو بڑھانا چاہیے۔جہاں تک کشمیری قوم کا تعلق ہے تو حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں سمیت تمام کشمیری جماعتیں اور قوم اگر اسی طرح اپنی جدوجہد میں ڈٹے رہے تو بھارتی فوج اپنے مذموم عزائم میں کسی صورت کامیاب نہیں ہو سکے گی اورجس طرح امریکہ افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہورہا ہے بالکل اسی طرح بالآخر بھارت سرکار کو بھی کشمیر سے اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑے گا اور مظلوم کشمیری ان شاء اللہ جلد آزادی کی فضا میں سانس لے سکیں گے۔