بڈاپسٹ (جیوڈیسک) پولنگ کے اختتام سے ہی یہ کہا جانے لگا تھا کہ یہ جماعت جیت چکی ہے۔ تاہم دیگر ملکوں میں مقیم ہنگری کے شہریوں کے ووٹ موصول ہونے تک اس کی دو تہائی اکثریت شک و شبے میں رہی۔ یہ ووٹ بہت سے حلقوں کے نتائج کو تبدیل کر سکتے تھے۔ بالآخر ان ووٹوں سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا۔ فیدس کو 45.1 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ یوں یہ جماعت سوشلسٹ قیادت میں قائم اتحاد کے 25.7 فیصد اور جوبک پارٹی کے 20.3 فیصد سے کہیں آگے ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جونیئر اتحادی کرسچن ڈیمو کرٹیس کے ساتھ فیدس کو 199 رکنی پارلیمنٹ میں 133 نشستیں حاصل ہوںگی۔ ہنگری کے قومی الیکشن آفس کے مطابق اپوزیشن جماعت لیفٹسٹ الائنس کو 38 نشستیں ملی ہیں جبکہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت جوبِک پارٹی نے 23 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ گرین پارٹی ایل ایم پی کو پانچ اعشاریہ چار فیصد ووٹ ملے ہیں جس سے اسے پارلیمنٹ میں پانچ نشستیں حاصل ہوں گی۔ اس صورتِ حال میں قانون سازی کے عمل کے لیے اوربان کو ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ میں کسی اور جماعت کی حمایت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اوربان پہلی مدت کے دوران بھی پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کو بلا ہچکچاہٹ استعمال کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے قانون سازی کے اچانک فیصلے کیے۔ ان کے مخالفین کے مطابق اس طرح وہ جمہوری اداروں پر اپنا کنٹرول بڑھانے کے ساتھ نگرانی کے عمل کو سخت بنانا چاہتے تھے۔ فیدس کی قیادت میں حکومت نے ایک نیا لیکن متنازع آئین بنایا تھا اور پارلیمنٹ کے ذریعے آٹھ سو سے زائد قوانین منظور کروائے تھے۔ اوربان نے اپنے وفادار ساتھیوں کو میڈیا اتھارٹی، مرکزی بینک اور آئینی عدالت جیسے اداروں کے سربراہ مقرر کیا۔ تاہم اوربان کا موقف ہے کہ انہوں نے بائیں بازو کی حکومت کے آٹھ سالہ دور کی بدنظمی کا صفایا کیا ہے اور ملک میں ان کی مقبولیت اس بات کی مظہر ہے کہ ان کی پالیسیوں کو سراہا جاتا ہے۔