پاکستان کے سیاسی نجومی

General Raheel Sharif

General Raheel Sharif

پاک آرمی کے سربراہ جنرل راحیل شرییف کے ایک مختصر بیان نے ملک کے سیاسی منظر نامے میں ہلچل بپا کی ہوئی ہے۔ اس دوران فوج کے کورپس کمانڈرز کی ماہانہ کانفرنس کے دوران بھی فوج کے اہم جرنیلوں کی طرف سے صورتحال پر ناپسندیدگی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ اسی پس منظر میں وزیر اطلاعات پرویز رشید کو ایک بار پھر یہ وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔

مبصر اور تجزیہ نگار اپنے اپنے طور پر صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اگرچہ سیاسی حلقے اور تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ فوج اور ملک کی سیاسی حکومت کے درمیان کوئی بڑا بحران موجود نہیں ہے اور ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے لیکن کوئی بھی اس حقیقت سے مکمل طور پر انکار کرنے کا حوصلہ نہیں کرتا کہ حکومت کے متعدد اقدامات اور مختلف معاملات پر وزراء کے بیانات فوج میں بے چینی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ان حالات میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا بیان صورتحال کی سنگینی کی طرف ہی اشارہ کرتا ہے۔

کورپس کمانڈرز کی ماہانہ کانفرنس میں بھی پاک فوج کی قیادت میں بے چینی کی بازگشت سنائی دی۔ اگرچہ اس کانفرنس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں سکیورٹی کے حوالے سے صرف اتنا کہا گیا ہے ” کانفرنس میں سکیورٹی ، ترقیاتی اور بحالیاتی امور میں پاک فوج کی شمولیت پر غور کیا گیا۔ آرمی چیف نے سنگین سکیورٹی اور انتظامی چیلنجز کے باوجود خدمات سرانجام دینے پر پاک افواج کی خدمات کو سراہا۔” اس کے باوجود کانفرنس کے بعض شرکاء کے حوالے سے جو خبریں اخبارات میں شائع ہوئی ہیں ان میں فوجی قیادت کی بے چینی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان خبروں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فوجی لیڈر بعض معاملات پر حکومتی اقدامات اور رویوں سے خوش نہیں ہیں۔

یوں تو جنرل راحیل شریف کے بیان میں کوئی خاص بات نہیں ہے اور جیسا کہ وزیر اطلاعات پرویز رشید اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ان کا بیان بالکل مناسب ہے۔ ہر ادارے کو اپنے مفادات کا تحفظ کرنے اور اپنے وقار کے لئے کام کرنے کا حق حاصل ہے لیکن پاکستان کے مخصوص پس منظر میں یہ بیان غیر معمولی طور پر سخت اور ایک وارننگ کی حیثیت رکھتا ہے۔

Pak Army

Pak Army

اگرچہ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پاک فوج ملک کے سیاسی نظام کی حمایت کرتی ہے اور اسے خراب کرنے کی خواہش نہیں رکھتی۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں فوج کو بطور ادارہ تنقید کا نشانہ بنانا یا ایسے بیانات جاری کرنا جن سے فوج یا فوجی قیادت کی توہین کا پہلو نکلتا ہو، انتہائی خطرناک اور پریشان کن ہو سکتا ہے۔ تاریخی پس منظر کے علاوہ ملک کی موجودہ سکیورٹی صورتحال بھی اس حوالے سے بے حد اہمیت رکھتی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے جمعہ کو ہی اپنے ایک بیان میں ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات کا ذکر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کو بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات کا سامنا ہے۔ ابھی طالبان کے ساتھ معاملات طے نہیں ہو پا رہے کہ دیگر انتہا پسند گروہ اپنے آپ کو منوانے کے لئے دہشتگردی میں مصروف عمل ہیں۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران ہی سبی اور اسلام آباد میں ہونے والے بم دھماکوں میں 50 سے زائد لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔ سکیورٹی کی اس غیر معمولی صورتحال میں فوج اور اس سے متعلقہ اداروں کی اہمیت میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے۔

جمہوریت کے حوالے سے یہ اصول بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے کہ سیاسی معاملات میں فیصلے کرنے کا حق اور اختیار صرف عوام کے منتخب نمائندوں اور ان کی منتخب کردہ حکومت کو حاصل ہے۔ اس اصول کو ماننے کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ملک میں صرف فوج ہی ایک ایسا ادارہ ہے جو احسن طریقے سے کام کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امن و امان کی خراب صورتحال ہو یا کسی قدرتی آفت کی صورت میں بحالی اور امداد کی ترسیل کا کام سرانجام دینا ہو ، فوج کو ہی آگے بڑھ کر خدمات سرانجام دینا پڑتی ہیں۔ ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے کے دعویدار سیاستدان بار بار موقع ملنے کے باوجود کوئی ایسا ادارہ استوار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جو بحرانی صورتحال میں امداد کی ترسیل ، بحالی یا امن و امان کی نگرانی کے لئے خدمات سرانجام دے سکے۔

Rangers

Rangers

ملک کی سیاسی مشکلات کے حوالے سے خواہ سابقہ فوجی آمروں کو جتنا بھی الزام دیا جائے ، متبادل مضبوط ادارے استوار کرنے میں ناکامی کی ساری ذمہ داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران سیاستدانوں کو برسر اقتدار آنے کے متعدد مواقع ملے ہیں لیکن ہر بار ہر سیاسی لیڈر نے ذاتی پوزیشن مستحکم کرنے اور گروہی مفادات حاصل کرنے کے سوا قومی سطح پر کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ ملک میں امن و امان اور سکیورٹی کے معاملات بگڑنے کے باوجود پولیس کے ڈھانچے یا ادارے کو بہتر بنانے اور مستحکم کرنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی ہو یا بلوچستان ، وہ معاملات جن میں پولیس کو مؤثر کردار ادا کرنا چاہئے ، ان میں بھی رینجرز یا پھر انتہائی صورتوں میں ایف سی اور فوج کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔

ان حالات کا تقاضہ ہے کہ ملک کے برسر اقتدار سیاستدان فوجی آمروں کی برائیوں اور غیر قانونی سرگرمیوں کی تفصیلات ازبر کروانے کی بجائے اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں پر غور کرتے ہوئے انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ افسوس کا مقام ہے کہ یہ رویہ ابھی تک دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے۔ اس کے برعکس یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکمران سیاستدان اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے سابقہ ادوار کی برائیوں کو زور و شور سے بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موجودہ بحران اسی عاقبت نا اندیشانہ طرز عمل کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جمہوریت کے بطن سے پیدا ہونے والی حکومتیں خود جمہوری اداروں اور رویوں کی پرداخت میں ناکام ہیں۔ امور حکومت اور مملکت کو سیاسی نعرے بازی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں پارلیمانی طرز حکومت موجود ہے لیکن اہم معاملات صرف وزیراعظم اور ان کے چند دل پسند رفقاء کے مشوروں اور صوابدید سے طے پاتے ہیں۔

قومی اسمبلی کے اراکین کو سرکاری فیصلوں کے لئے ربر اسٹیمپ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پارلیمانی جمہوریت کا اہم ترین ادارہ پارلیمنٹ بھی ابھی تک ٹھوس بنیادوں پر استوار نہیں ہو سکا اور نہ ہی اس کے بیشتر ارکان کو جمہوری پارلیمانی روایات اور اطوار کا علم ہو سکا ہے۔ اس ناکامی کی ذمہ داری بھی سیاستدانوں پر ہی عائد کی جا سکتی ہے۔

Arif Nonari

Arif Nonari

تحریر : سید عارف نوناری