انسانیت صہونیت کے خوفناک شکنجے میں

World

World

بیسویں صدی کے آخری نصف حصے میں دنیا میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی جو دوڑ شروع ہوئی اس کے دو فیز تھے جن کے ذریعے اپنے مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکتا تھا۔ 1980 کی دہائی میں سوویت یونین کے زوال کے بعد یہ تاثر ختم ہو گیا کہ مضبوط ریاست کے لیے رقبے کا وسیع ہونا ضروری ہوتا ہے۔ پہلے فیز میں قدرتی وسائل کی فراوانی اور خوشحالی ضروری تصور کیا جاتا تھاجبکہ دوسرے فیز میں جدید ٹیکنالوجی کو سب سے اہم خیال کیا گیا۔ آج جس قوم کی خوف ناک جدید ٹیکنالوجی پر اجارہ داری ہے وہ1950 کی دہائی تک مسلم دنیا کی مختلف ریاستوں میں آباد تھی اور جزیہ دیکر اپنی جان ومال کی امان پاتی تھی۔ یہ قوم یہودی تھی جس نے1950کے بعد اپنے آپ کو متحد کیا اور مسلم ریاستو ں کی زمینوں پر قبضہ کر کے ایک الگ ملک بنایا۔انہوں نے ملٹی نیشنل کمپنیاں بنائیں، دنیا کے سرمائے کی ایک بڑی مقدار کو جمع کیا، بڑی طاقتوں سے اپنے تعلقات استوار کیے، اقلیت میں ہونے کے باوجود اکثریت کو اپنا مطیع کیا۔

امریکہ اور عالمی طاقتو ں کا ایران کے ساتھ ہونے والا معاہدہ نہ صرف ایران کے لیے بلکہ شام، عراق سمیت دیگر مسلم ممالک کے معاملات پر بھی اثر انداز ہو گا اور اسی بات کی پریشانی صہیونیوں کو لاحق ہو چکی ہے۔غیرملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ،اسرائیل کو فلسطین پر قابض ہوئے پینسٹھ برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے ، اسرائیل اور اس کی صہیونی لابی اس کوشش میں مصروف ہے کہ کسی طرح عرب لیگ اور اس کے بعد عالمی سطح پر اسرائیل کے غاصبانہ اور ظالمانہ اقدامات کو تسلیم کیا جائے اور اس کام کے لیے امریکہ میں موجود صہیونی لابی سرگرم عمل ہے۔

فلسطین پر قابض صہیونی اور امریکہ میں موجود صہیونی لابی فلسطینیوں کی سر زمینوں پر یہودی آباد کاری کے حق کو تسلیم کروانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے جب کہ اقوام متحدہ کی جانب سے غاصب اسرائیل کے اس طرح کے اقدامات کی شدید مذمت کی جا چکی ہے لیکن امریکہ میں موجود صہیونی لابی امریکن انتظامیہ پر دبائو بڑھا رہی ہے کہ ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو منسوخ کیا جائے اور ساتھ ساتھ اسرائیل کو کھلی چھٹی دی جائے کہ وہ جس طرح چاہے او ر جب چاہے نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کو بھی جاری رکھے۔

حال ہی میں خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال اور معاملات کے بعد دیکھا جا رہا ہے کہ اسرائیلی سلامتی اور سیاسی اعلیٰ عہدیدار شدید پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں ۔ جس کی سب سے بڑی وجہ ہارپ ٹیکنالوجی ہے جس کی سرپرستی صہیونی لابی کررہی ہے۔ امریکی سائنسدانوں نے 100 برس پہلے ہارپ ٹیکنالوجی کا نظریہ دیا۔ امریکی سائنسدان نکولاسٹیلا نے 1915ء میں موسم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی تھیوری پیش کی تھی امریکہ نے پینٹاگون کے ذریعے اس نظرئیے کو عملی شکل دی۔ ہارپ ٹیکنالوجی میں موبائل،انٹرنیٹ ،مسیج، فیس بک،جی میل،یاہو،ٹیوٹر سمیت تقریباً ایک سو کے قریب اقسام ہیں۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے جس کے ذریعے پوری دنیا کا کنٹرول حاصل کرنا بھی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے سامنے ایٹم بم کی کوئی حیثیت نہیں رہی جس کے ذریعے موسم میں شدت لائی جا سکتی ہے ۔مسلم ممالک کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن روس اور خود امریکہ کیوں اس ٹیکنالوجی کے شکار ہیں اس کا جواب امریکہ پر قابض یہودیوں کے پاس ہی ہوگا۔

Electro Magnet

Electro Magnet

ایچ اے اے آر پی ہارپ امریکی محکمہ دفاع کا ایک غیر معروف لیکن انتہائی اہم پروگرام ہے جس نے گذشتہ سالوں میں بعض حلقوں میں کافی حد تک تنازعات کوجنم دیا ہے ۔ اگرچہ حکام نے اس بات کی تردید کی ہے تاہم بعض قابل احترام محقق الزام لگاتے ہیں کہ ایچ اے اے آر پی کی خفیہ الیکٹرومیگنیٹک سے متعلق جنگی استعداد کو امریکی فوج کے 2020ء تک معین مقاصد کے تحت مکمل طور پرغلبے کے لیے ڈیزائن کیاگیا ہے ۔اپریل 1997ء میں اس وقت کے امریکی وزیردفاع ولیم کوہن نے عوامی سطح پر ہارپ جیسی ٹیکنالوجی کے خطرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ٹیکنالوجی سے جہاں موسم تبدیل کیا جاسکتا ہے وہیں زلزلے شروع کئے جاسکتے ہیں، آتش فشانوں کو الیکٹرومیگنیٹ کس لہروں کے ذریعے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔اس لیے یہاں بہت سارے ذہین دماغ ہیں جو اس کے مختلف پہلوؤں پر کام کررہے ہیں تاکہ وہ انتقام لینے کے لئے دیگر قوموں کو ڈرائیں، دھمکائیں اورایک پل میں موسم کی تبدیلی کے لئے ٹیکنالوجی کے حصول کی منظوری دی گئی۔

امریکہ آبی جارحیت کے ذریعے اپنے مقاصد میں کامیاب رہا اور پھر امداد کے نام پر پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں لاکھوں جاسوس بھیج دیئے ، جبکہ اس سے قبل بکتربند گاڑیوں کی پاکستان آمد کی خبریں بھی اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں اور بعد میں وکی لیکس نے انکشاف کیا کہ سیلاب سمیت مختلف سانحات کے متاثرین کی مدد کو آنے والے امریکی جاسوس اور کمانڈوز تھے جو مدد کی آڑمیں اپنا مشن انجام دینے آئے تھے۔

ایران نے نومبر2013ء میں طے پانے والے ایک معاہدے میں جس میں امریکہ سمیت روس، چین اور یورپی ممالک شامل تھے ، چھ ماہ تک یورینیم کی افزودگی میں کمی کا اعلان کر دیا تھا۔اس کے جواب میں امریکہ سمیت یورپی یونین نے ایران پر سے کچھ پابندیوں میں نرمی کا اعلان کر دیا تھا،چھ مہینے کا ہونے والا یہ معاہدہ ہر طرح سے ایران کے حق میں رہا اور ایران کو موقع ملا کہ ان چھ ما ہ میں اپنی تجارتی سرگرمیوںکو تیز کر سکے، جب کہ دوسری طرف صہیونی اس فیصلے سے شدید پریشان نظرآئے۔جس سے ہارپ ٹیکنالوجی پروگرام کو شدید خطرہ تھا۔یہی وجہ تھی کہ اسرائیل سمیت امریکا میں موجود صہیونی لابی نے روز اول سے امریکا ، یورپی یونین اور ایران کے درمیان ہونیوالے مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے اس بات کی کوشش کی کہ کسی طرح اس معاہدے کو ختم کیا جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک کو دی جانیو الی کروڑوں ڈالر کی امداد سے انسانیت صہونیت کے خوفناک شکنجے میں ہے اورمسلم امہ حکمران کی خاموشی کئی سوالات جو جنم دے رہی ہے؟

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ