شدت پسند امریکہ

Extremists

Extremists

شدت پسند کے لغوی معنی ہے کسی بھی کام میں دل و جان صرف کردینا،ویسے تو یہ لفظ زندگی کے ہر معاملات میں استعمال کیا جاسکتا ہے مگر موجودہ دور میں یہ صرف مذہنی ذہنیت والے انسانوں بالخصوص اسلام اور مسلمانوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔دنیا ئے اسلام آج کل دہشتگرد ،انتہا پسند ،اور شدت پسند کے نام سے زیادہ جانی جارہی ہے۔ہر طرف مسلمان بدنام کیا جا رہا ہے،گیارہ ستمبر 2011ء کا ڈرامہ اسی لیے رچایا گیا تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ مسلمان قوم دنیا کے لئے خطرہ بن چکی ہے اور اب وقت آچکا ہے کہ دنیا سے مسلمانوں کا وجود مٹا دیا جائے،ورنہ آج تک یہ بات کیوں منظر عام پہ نہ آسکی کہ گیارہ ستمبر کے دن ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے تمام یہودی ملازمین اچانک کیوں غائب تھے۔ایسی کیا بات تھی کہ جس دن دہشتگردی کا حملہ ہوا اسی دن تمام یہودیوں نے چھٹی کرنی تھی۔

کیا یہ کوئی سازش تو نہیں تھی اور ییقیناًًیہ ایک سازش ہی تھی جسکو جواز بنا کر امریکہ نے فوراًامن کے گہوارہ افغانستان پر حملہ کردیا اور وہاں کے مسلمانوں پر وہ مظالم ڈھائے جو تاریخ میں نہیں ملتے اگر یہ کوئی سازش نہ تھی تو وہ کیا وجہ تھی جو مسلمانوں کے دوسرے ملک عراق پر حملے کی بنیاد بنی؟ امریکہ خود کو دنیا کا بادشاہ کہلاتا ہے ، اس وقت طاقت کے نشے میں چور امریکہ نے پوری دنیا کے یہود و نصاری کو جمع کیا اور مسلمانوں کے خلاف سرد جنگ کا آغاز کردیا۔افغانستان میں اس وقت خلافت نافذتھی ، ملا محمد عمر مجاہد افغانستان کے خلیفةالمسلمین تھے،جب حملہ ہوا تو طالبا ن نے پہاڑوں کا رخ کیا اور امریکی اور اتحادی افواج کے زمین پر آنے کی طاق میں بیٹھ گئے،پھر جو ہوا وہ دنیا گواہ ہے کہ مٹھی بھر طالبان نے تمام جہانوں کی سوپر پاور اﷲ پر بھروسہ کرکے دنیا کی خود ساختہ سوپر پاور امریکہ کو ناقو چنے چبوا دئیے۔

امریکہ کی اصل منزل مسلمانوں کا خاتمہ تھی جس پر وہ کسی بھی قیمت پر پہنچنا چاہتا تھا لہذا اس نے عراق پر تباہ کن ہتھیار بنانے کے گناہ کی پاداش پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور اسکے لئے اپنی کٹھ پتلی اقوام متحدہ پر دبائو ڈالا اور اس طرح اس نے صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹا دیا جب کہ حملے کا اصل مقصد تو عراق میں موجود تیل کے ذخائر پر قبصہ کرنا تھا جس میں وہ کافی حد تک اب کامیاب ہو چکا ہے۔ صدام حسین کی حکومت مسئلہ نہیں تھی نہ ہی مسئلہ عراق کے پاس تباہ کن ہتھیاروں کی موجودگی تھی، اصل مسئلہ عراق کے تیل کے ذخائر پر اپنا تسلط قائم کرناتھا۔امریکہ چاہتا تھا کہ وہ اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کے لئے ایک محفوظ راستہ بنا سکے تاکہ اس خطے میں اسرائیل کے خلاف کبھی کوئی کاروائی کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔امریکہ کا سب سے اہم حدف پاکستان ہے ، کیونکہ پاکستان مسلم دنیا کا واحد ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک ہے اور دنیا کی چھٹی سب سے زیادہ فوج کا حامل ملک ہے۔

امریکہ جانتا ہے کہ پاکستان کا شکار کرنے کے لئے اسے اسکے پڑوسی ممالک پر اپنا تسلط قائم کرنا ہوگا،تاکہ وہاں رہ کر پاکستان کے اندز تخریبکاریاں کی جا سکیں ، حالات خراب کیے جا سکیں اور آپس میں اسلامی اخوت کے رشتے میں بندھے پاکستانیوں کو ذات پات،رنگ نسل، قوم زبان ،مذہب اور فرقوں کے نا م پر لڑوا کر اتنا کمزور کردیا جائے کراچی میں جاری قتل و غارت گری ،اور بلوچستان میں جاری خون کی ہولی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے امریکہ کیا کر رہا ہے ،وجہ یہی ہے کہ امریکہ کبھی ایک بھرپور حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا کیونکہ پاکستان کے پاس لڑنے کا حوصلہ موجود ہے،بہترین افواج ہے جو دشمن کا منہ مٹی چٹانے کا ہنر باخوبی جانتی ہے ،دنیا کی واحد مسلمان ایٹمی قوت ہے اور سب سے بڑھ کر اﷲ پر کامل ایمان ہے، یہ سب ملا کر پاکستان ایک ناقابل تسخیر ملک بن چکا ہے۔

America

America

امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان کے اندر رہنے والوں کو آپس میں لڑوادیا جائے تاکہ ایک معمولی سی فوجی کاروائی کرکے پاکستان کو مٹا دیا جائے ،یہی ایک راستہ ہے امریکہ کے پاس ورنہ پاکستان عراق اور افغانستان نہیں ہے جو ایک ترنوالہ ثابت ہوگا، دنیا جانتی ہے کہ ہم پاکستانی وہ قوم ہیں جو میدان جنگ میں دشمن کو بہترین سبق دیتے ہیں ، پیٹھ پھیرنا پاکستانی مسلمانوں کی مائوں نے سیکھایا ہی نہیں ہے۔
امریکہ جانتا ہے کہ اگر مسلمانوں کا صفایا کرنا ہے تو سب سے اہم اور مشکل کام مسلمانوں کی ہمت پاکستان کو ختم کرنا انتہائی ضروری ہے،ایک پاکستان ہی ہے جو دشمنان دین کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔پاکستان نے اس بدنام زمانہ دہشتگردی کی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔

چالیس ہزار سے زائد جانیں ضائع ہوئیں ہیں ۔افغانستان میں امریکہ نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے، اور اب اس کے واپس جانے کا وقت بھی قریب آگیا ہے، چودہ سالہ جنگ میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ امریکہ کو کسی بھی محاز پر شکست نہ ہوئی ہو، ان مٹھی بھر طالبان مجاہدین نے اﷲ پر بھروسہ کرکے وقت کی خودساختہ سوپر پاور کو دھول چٹادی ہے۔امریکہ اس شکست کا ذمہ دار پاکستانی آئی ایس آئی کو مانتا ہے، شکست خوردہ امریکہ آج یہ کہتا پھر رہا ہے کہ دہشتگردوں کو پاکستان مدد دے رہا ہے تبھی ہم یہ جنگ نہ جیت سکے، اور جاتے جاتے وہ اس ہار کا بدلہ پاکستان میں خانہ جنگی کی کیفیت بنا کر لینا چاہتا ہے۔تاکہ پاکستان کو مزہ چکھایا جاسکے۔لیکن وہ شاید یہ بھول گیا ہے کہ پاکستان میں مسلمان رہتا ہے، ابھی سویا ہوا ہے لیکن اگر امریکہ باز نہ آیا تو وہی مسلمان حضرت عمرفاروق ، حضرت خالد و ضرار ،اور حضرت علی کی جیسی تاریخ رقم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

بات دراصل یہ ہے کہ افغانستان ،عراق کا اصل گناہ یہ تھا کہ وہ مسلمان ملک ہیں، پاکستان کا اصل گناہ یہ ہے کہ تمام مسلم ممالک کی لئے ریڑھ کی ہڈی،ایک طاقتور لیڈر بننے کی تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں اور یہ بات دین کے دشمنوں کو کیسے برداشت ہوسکتی ہے کہ کوئی مسلمان قوم دنیا میں رہے،اسی لیے حملے ہوئے اور اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک ہم اپنا مسلمان ہونا نہ سمجھ لیںتب تک ہم یوں ہی مار کھاتے رہیں گے۔امریکہ اگرہزاروں مسلمانوں کا خون بہائے،ہزاروں مسلمان بچوں کو یتیم بنائے، یا لاکھوں مسلمان مائو ں بہنوں کے سر کے ڈپٹے اتارے اور ان کی عزتوں کو خاک میں ملا دے، یا معصوم بچوں سے ان کے ماں باپ کا سایہ اٹھالے تو صاحب وہ دہشتگردی نہیں ہوگی، وہ شدت پسندی نہیں ہے ،بھلے مسلمان قوم پر فاسفورس بم برسائے جائیں ،ہزاروں ٹن وزنی بارود میں مسلمانوں کو نہلادیا جائے یہ سب شدت پسندی ہرگز نہیں ہے ، کیونکہ امریکہ دنیا کا بادشاہ ہے۔

اسے کھلی اجازت ہے، وہ ظلم نہیں بلکہ انصاف کرتا ہے،مسلمانوں کو اس لئے مارتا ہے کیونکہ مسلمان قوم اسکی راہ میں رکاوٹ ہے، وہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی رکاوٹ رہے، اصل دہشتگرد تو مسلمان ہیں جو امریکہ سرکار کے آگے کھڑے ہیں،یہاں میں ان مسلمانوں کی بات نہیں کر ریا جو اپنے گھروں میں آرام کی زندگیاں گزار رہے ہیں بلکہ امریکہ سمیت تمام دشمتان دین کی نظر میں مسلمان وہ ہے جو میدان جہاد میں کفار کے لئے موت کا سامان بنے ہوئے ہیں ، جی ہاں وہ مجاہدین جو ااﷲ کی زمین میں اﷲ کے بندوں پر، اﷲ کے نافذ کردہ دین اسلام اور شریعت کو عملاًنافذ کرنے کی خاطر اپنی جان تک کی پروہ نہیں کر رہے، امریکہ کی نظر میں وہ مجاہدین ہی مسلمان ہیں ،اور یہ وہی مسلمان ہیں جن کو دنیا دہشتگرد ، شدت پسند مانتی ہے اور آج کا ماڈرن مسلمان ایسے مجاہدین کو بھٹکے ہوئے لوگ گردانتا ہے۔اگر عافیہ صدیقی اور ان جیسی ہزار مائوں بہنوں کو اغواء کرکے امریکہ اپنا سیلف ڈیفنس کر رہا ہے تو وہ شدت پسندی نہیں ،بلکہ حق ہے ، اور اگر یہی کام کوئی مسلمان کردے تو وہ دنیا کی نظر میں شدت پسند ، اور بزدلی کے نام سے جانا جائے گا۔

ذرا سوچئے…کیا دوغلہ پن ہے یہ ،آخر کب تک ہم مسلمان امریکہ کے آگے تگڑی کا ناچ ناچتے رہیں گے،کیا آج ہم اتنے بزدل ہوگئے ہیں کہ دین کے دشمن ہم پر حاوی ہوگیا ہے یا پھر اﷲ پر بھروسہ نہیں رہا؟اصل وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان آج دنیاوی لذتوں کا شکار ہوگئے ہیں ،دین سے جب جب دوریاں بڑھی ہیں مسلمان ہمیشہ زلیل و خوار ہوا ہے،واحد حل یہی ہے کہ اﷲ سے معافی مانگی جائے اور دین پر لوٹا جائے ورنہ کہیں دیر نہ ہوجائے۔ضرورت صرف اﷲ پر اپنے ایمان کو مضبوط بنانے کی ہے اور اپنے تمام معاملات امریکہ کے بجائے اﷲ کو سپرد کرنے کی ہے ،پھر یقین مانئیے،مسلمانوں کی وہی پرانی شان و شوکت ضرور لوٹے گی۔اﷲ سے دعا ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں اتحاد و اتفاق قائم کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

Gularsh Shahid

Gularsh Shahid

تحریر:گل عرش شاہد
gularsh1986@hotmail.com