سوشل میڈیا سے دنیا ایک گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر چکی ہے اور یہ آج ہر فرد کی ضرورت بن چکا ہے اور اس کا صحیح استعمال جہاں انسان کے لئے صدقہ جاریہ ہے وہ اں اس کا غلط استعمال دنیا اورآخرت کی تباہی کی شکل میں نکل سکتا ہے اور اس کے ایمان، صحت، گھریلو زندگی ، آمدنی اور ہر چیز پر بڑے برے اثرات پڑ سکتے ہیں لہذا اس میڈیم کو بہت اچھے طریقے سے استعمال کی ضرورت ہے اور ہر شیطانی وسوسے اور انٹر نیٹ پر موجودہر اس چیز سے جو غلط راستے پر لے جاتی ہو اس سے بچنا ہی بہتر ہے۔
قرآن مجید میں مومنوں کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ لغو اور بے حیائی والی چیزوں کے قریب بھی نہیں جاتے اس لئے اپنے ایمان کو ٹٹولنا چاہئے اور اپنے ایمان کی حفاظت کرنی چاہئے کیونکہ ایمان سوشل میڈیا اور دنیا کی ہر چیز سے قیمتی ہے اللہ کی حرام کردہ حدوں کے قریب بھی نہیں جانا چاہئیے کیونکہ جوسرحد تک پہنچ جاتا ہے اس امر کا غالب امکان ہوتا ہے کہ وہ سرحدوں کو عبور بھی کر سکتا ہے۔
سب سے پہلے تو آپ نے اپنے بارے میں یہ دیکھنا ہے کہ آپ پر اس ٹیکنالوجی کا نقصان زیادہ ہے یا فائدہ اور اس کے جج آپ خود ہوں گے کیونکہ تنہائی میں آپ جو کرتے ہیںاس کا آپ کو خود ہی علم ہوتا ہے۔ ہر لمحہ ، ہر سیکنڈ،ہر دن اپنا احتساب کیجئے کہ آج کوئی غلط کام یا گنا ہ تو نہیں ہوا، روزانہ کی ڈائری مرتب کیجئے۔انٹرنیٹ ایک بہت ہی بڑا فتنہ ہے اور اس سے بچنا بھی ناممکن ہے لہذا ایک ہی طریقہ ہے کہ اللہ کے دین کے ساتھ مضبوطی سے چمٹ جائیے اپنا ایمان اتنا مضبوط کیجئے کہ یوسف علیہ السلام کی طرح تنہائی میں بھی آپ اللہ کے خوف سے ہر گنا ہ سے باز رہیں۔اس کا صرف اتنا استعمال کیجئے جتنا مجبور ی اور ضروری ہے کیونکہ اس کے صحت اور ایمان پر انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
Computer
سب سے پہلے تو یہ زیادہ بیٹھنے والا کام ہے اور زیادہ بیٹھنا سستی ، کاہلی اور صحت کی خرابی کا باعث ہو سکتا ہے۔ دوسرا اگر آپ دین کی دعوت بھی دیتے ہیں تو آپ کو قرآن و حدیث کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنا چاہئے بہتر تو یہ ہے کہ کسی دینی مدرسے میں داخلہ لیا جائے لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو تو نیک لوگوں سے دوستی کی جائے، قرآن و حدیث کے دروس اور محفلوں میں شریک ہوں، علاوہ ازیں روزانہ ایک گھنٹہ تہجد ،اشراق کی نماز، ورزش، صبح کی سیر ،واک ، دوڑ، چاشت کی نماز، قرآن کی زیادہ تلاوت اور ساتھ ترجمہ و تفسیر پڑھنا اورساتھ عمل بھی کرنا، روزانہ حدیث کاایک گھنٹہ مطالعہ کرنا، عربی زبان سیکھنا،ایک گھنٹہ سے زیادہ مسلسل کمپیوٹر پر نہ بیٹھنا، رات اور تنہائی میں کمپیوٹر کے استعمال سے بچنا، عشا ء کے فوری بعد سو جانا، ورزش ، پارک اور جم سے تعلق رکھنا، کمپیوٹر استعمال کرتے وقت سا تھ ساتھ آڈیو دروس تفسیر وغیر ہ لگا لینا،نماز کی سختی سے پابندی، تکبیراولی کے ساتھ ،اذان ہوتے ہی کام چھوڑ دینا،اذان کا جواب دینا،گھر والوں کو وقت دینا،لڑکیوں اور جنس مخالف کو فرینڈ بنانے سے بچنا، موسیقی اور لایعنی بغیر مقصد پیجزاور ویب سائٹس کے قریب بھی نہ جانا،ہر نماز کے بعد کچھ ورزش کرنا، دوست بناتے وقت اس کی ٹائم لائن دیکھنا کہ اس کی دوستی کا مجھے فائدہ ہے یا نقصان،وضو اور مسجد کے نفل، سنتوں کی پابندی، پیدل چل کردور کی مسجد جانا، سواری سے زیادہ پیدل چلنے کو ترجیح دینا، باغبانی اور دیگر جسمانی مشقت والی گھریلو سرگرمیوں میں حصہ لینا، بیوی بچوں ماں باپ رشتہ داروں ہمسایوں کو وقت دینا اور ان کے حقوق ادا کرنا اور ایسی بے شمار صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لینا جن سے آپ کے ایمان، سماجی تعلقات اور صحت کی حفاظت ہو۔
چھپ کر گناہ کرنا انسان کو بعض اوقات منافق بھی بنا دیتا ہے یعنی بظاہر تو کوئی نیک ہو لیکن تنہائی میں اللہ کی ساری حدود کو پھلانگ جائے حدیث میں آتا ہے کہ بعض لوگوں قیامت کے دن تہامہ پہاڑ جتنی بڑی نیکیاں لیکر آئیں گے لیکن ان کا کوئی وزن نہ کیا جائے گا جس کی وجہ یہی ہو گی کہ وہ باوجود بڑی نیکیا ں کرنے کے تنہائی میں بڑے بڑے گناہ کو بھی معمولی سمجھ کر کر جاتے ہوں گے اور ایک دفعہ نفاق کی بیماری آ جائے تو مرتے دم تک چھٹکارا مشکل ہوتا ہے اور منافق دنیا میں بھی پریشانیوں، آفتوں کا شکار ہوتے ہیںاور جہنم میں بھی سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔
Quran
سوشل میڈیا کا منفی استعمال کرنے والوں کو قرآن کی یہ آیت حبا المنثورا بھی مد نظر رکھنی چاہئیے جس کا مطلب ہے کہ جب ہم قیامت کے دن ان کے عملوں تک پہنچیں گے تو انہیں اڑتے ہوئے ذرات بنا دیں گے اور سورہ کہف میں آتا ہے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے کام کر رہے ہیں لیکن قیامت کے دن ان کا کوئی وزن نہ کیا جائے گا کیونکہ انہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا۔ آیات کاانکار سے مراد اللہ اور رسولۖ کا ایک یا زیادہ حکم ماننے سے انکار کرنا ہے کہ آپ کے سامنے اللہ کا حکم آیا اور آپ نے اسے بار بار رد کر دیا۔مثلا نیک لوگوںو مومنوں سے دوستی کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور آپ کی دوستی انٹرنیٹ پر انتہائی فاسق و فاجر ،آوارہ،جرائم پیشہ، برے لوگوں کے ساتھ ہو لہذا دوستی میں بہت احتیاط کریں اچھا دوست آپ کو جنت میں لے کر جائے گااور برا جہنم میں ،لہذا دوست بناتے وقت یہ بات مدنظر رکھیں۔سوشل میڈیا استعمال کرنے والا ہرشخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ بہت ہی اچھا کام کر رہا ہے لیکن جائزہ لیا جائے تو پانچ گھنٹے روز فیس بک استعمال کرنے والے اکثر لوگوں میں بمشکل نصف گھنٹہ ہی ایسا ہوتا ہو گا کہ آپ کا عمل آپ کے لئے دنیا اور آخر ت میں فائدے کا باعث ہوا اور سوائے وقت کے ضیاع کے کچھ نہ ہو۔اس کے سماجی زندگی پر بھی برے اثرات پڑ سکتے ہیں ایک تحقیق کے مطابق امریکہ میں طلاقوں کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا بھی بن رہا ہے۔
اسکے زیادہ یا غلط استعمال سے صحت پر تباہ کن اثرات ہو سکتے ہیں اور عمر کے کئی سال کم ہو سکتے ہیں ،غیر متحرک زندگی اور زیادہ کمپیوٹرپر بیٹھنے سے شوگراور دیگر خطرناک بیماریاں ہو جاتی ہے، عینک لگ جاتی ہے معدہ کمزور ہوجاتا ہے، ٹانگوں میں دوران خون رک جاتا ہے، وزن اور چربی بڑھنے سے کولیسٹرول اور دل کی بیماریاں ہو جاتی ہیں، گردن ، سر ، کندھے ،کلائی اور کمر کا درد شروع ہو جاتا ہے۔
اسکے لئے چند احتیاطی تدابیر کرنی چاہئیں کہ بہت دینی کام کے علاوہ روزانہ ایک گھنٹہ سے زیادہ کمپیوٹر استعمال نہ کریں ہو سکے تو ہر نصف گھنٹے کے بعد اٹھ کردو نفل نماز ادا کریں جس سے جسم کے ہر جوڑ کو سکون ملتا ہے موبائل کے بھی بڑے فائدے ہیں لیکن اس کے نقصان بھی بہت ہیں مثلا اینڈرائڈ سیٹ کو روزانہ ہر وقت چارجنگ پر وقت ضائع کرنا،ذاتی زندگی میں مداخلت، ہر وقت اسی کی فکر، موبائل کا غلام بن جانا اور دیگر وقت ضائع کرنے والے یا گنا ہ والے فضول گانے فلموں ڈراموں چیٹ والے غلط کام کرنا اور آنکھیں کمزور ہو سکتی ہیں۔
Mobile
قرآن و حدیث کے مطالعے کو چھوڑ کر ہر وقت موبائل سے الجھے رہنا اس لئے صرف قریبی رشتہ داروں اور اچھے جاننے والے لوگوں کو دوست بنائیں اور اپنی پرائیوسی سیٹنگ کو سب سے زیادہ محفوظ درجے پر کریں تاکہ آپ کا ذاتی مواد ہر کوئی نہ دیکھ سکے۔کم عمر بچوں اور خصوصا لڑکیوں کے سوشل میڈیا کی دوستی کے ذریعے اغوا کے واقعات سامنے آرہے ہیں اس لئے انہیں بھی احتیاط کرنی چاہئے الغرض سوشل میڈیا کی ٹیکنالوجی کا اچھا استعمال ہر شخص کی صحت، دنیا اور آخرت بہتربنانے میں مدد کر سکتا ہے اور برا استعمال فتنہ بن کر زندگی تباہ بھی کر سکتا ہے اس لئے اس میڈیم کا بہت ہی احتیاط اور شرعی حدود میں استعمال کرنا چاہئے۔