غداری کیس؛ عدالت نے 1956 سے ٹرائل شروع کرنے سے متعلق کسی حکم کا تاثر مسترد کر دیا

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

اسلام آباد (جیوڈیسک) سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی عدالت نے 1956 سےٹرائل شروع کرنے کے بارے میں کسی حکم کا تاثر مسترد کر دیا۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ کیا عدالت نے 1956 سے ٹرائل شروع کرنے کی ان کوئی استدعا مسترد کی ہے اگر ایسا ہے تو انہیں عدالتی حکم کی نقل فراہم کی جائے تا کہ وہ تحریری وضاحت کر سکیں، جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ عدالت نے ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا۔

جس کے بعد وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے سابق صدر کے 3 نومبر کے اقدامات میں معاونین کے خلاف کارروائی کی درخواست پر اپنے تحریری جواب داخل کیا، جس میں کہا گیا کہ تحقیقاتی رپورٹ کی نقل فراہم کرنا ضروری نہیں، قانون میں جن دستاویزات کی فراہمی کا ذکر موجود ہے، وہ تمام جمع کرائی گئی ہیں، جن افراد کا نام شکایت میں شامل نہیں ان پر خصوصی عدالت کی دفعہ 6 جی کا اطلاق نہیں ہو گا۔ شریک ملزمان کا نکتہ شہادتوں کے مرحلے پر اٹھایا جا سکتا ہے، معاونین کو ٹرائل میں شامل کرنے کی استدعا قبل از وقت ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے تینوں ارکان کا نام گواہان میں شامل ہے، ان گواہان پر جرح کی جا سکتی ہے۔

تحریری جواب کے بعد وکیل استغاثہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ وزیراعظم کے دفتر میں ایمرجنسی کے نفاذ کے لئے کسی ایڈوائس یا سمری کا ریکارڈ موجود نہیں، ایمرجنسی کے نفاذ سے متعلق نوٹی فکیشن میں جن افراد سے مشاورت کا تذکرہ کیا گیا اس کا علم صرف پرویز مشرف کو ہو گا اور وہی اپنے مشیروں کی نشاندہی کر سکتے ہیں، پرویز مشرف کے حق میں بھی کوئی دستاویز ملی تو عدالت کے سامنے رکھیں گے، انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ ان کے پاس نہیں اور اس کے مندرجات کا بھی علم نہیں، جوائنٹ سیکریٹری داخلہ رپورٹ لے کر آئے ہیں، عدالت جب چاہے گی اسے پیش کر دیا جائے گا۔

جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ فوجداری مقدمات میں وہ دستاویز طلب کرنا ملزم کا حق ہے جس کی بنیاد پراسے ملوث کیا گیا، ملزم اپنے دفاع کے لئے شہادتوں کے مرحلے پر رپورٹ کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ ملزم تحقیقاتی رپورٹ دیکھنا چاہتا ہے تو اسے کیوں محروم رکھا جائے، عدالتی ریمارکس پر اکرم شیخ نے کہا کہ بین الاقوامی قانون میں اس بات کی گنجائش نہیں کہ جن سے تفتیش کی جائے ان کے نام دیئے جائیں کیونکہ بعض اوقات غیر متعلقہ لوگوں سے بھی تفتیش کی جاتی ہے، اسکاٹ لینڈ یارڈ نے الطاف حسین کے خلاف مقدمے میں ایک ہزار سے زائد افراد سے تفتیش کی، ملزم وہ بیان مانگ سکتا ہے جو اس کے خلاف بطور شہادت پیش ہو۔ عدالت سے استدعا ہے کہ وہ ان درخواستوں کو مسترد کر دے کیونکہ یہ درخواستیں صاف نیت سے داخل نہیں کی گئیں۔