حلیم عادل شیخ کا سول ہسپتال عمر کوٹ، یوسی گھپلو اور کھوکھرا پار کے مختلف گوٹھوں کا دورہ

عمر کوٹ : حلیم عادل شیخ کا سندھ میں قحط سے متاثرہ علاقوں میں PRF کی طبی ٹیم ، ڈاکٹروں، رضاکاروں اور ایمبولینسز کے ہمراہ عمرکوٹ سول ہسپتال کا دو روزہ دورہ۔ عمر کوٹ کی یوسی گھپلو اور کھوکھراپار کے مختلف گوٹھوں کے دورے، متاثرہ لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور امدادی سامان تقسیم کیا۔ عمر کوٹ ہسپتال میں متاثرہ مریضوں کی عیادت کے دوران بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک بارشیں نہیں ہو جاتیں۔

حکومت کو ایمرجنسی کے طور پر متاثرہ لوگوں کی غذائی قلت کو پورا کرنے کے لئے کام کرتے رہنا ہو گا۔ حکومت کہتی تھی کہ سب اچھا ہے میڈیا دکھا رہا ہے کہ غذائی قلت سے معصوم بچے ابھی تک مر رہے ہیں۔ میں اپنی ٹیم کے ہمراہ یہ دیکھنے آیا ہوں کہ حکومت کہاں تک درست ہے اور میں نے یہ دیکھا کہ حکومت ابھی تک دعوئوں اور وعدوں تک محدود ہے۔ میرے ہوتے ہوئے 2 بچے جن میں سے ایک 8 ماہ کا معصوم بچہ عابد ولد مراد جس کا وزن 2 کلو جبکہ ایک بچی پائل چوکھو کی عمر 7 ماہ اس کا وزن بھی 2 کلو کے قریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک عابد اور پائل جیسے غذا کی کمی سے کمزور بچے ہسپتالوں میں آتے رہیں گے، حکومت اپنی ذمہ داریوں سے بری نہیں ہوسکتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو تمام دور دراز علاقوں میں ریلیف کے کاموں میں تیزی لانا ہوگی۔

غذائی قلت سے بچوں کی اموات میں اضافہ رکا نہیں ہے کیونکہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت ابھی تک دعوئوں اور وعدوں سے آگے نہ بڑھ سکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے شکایات ملی ہیں کہ انتظامیہ اپنے من پسند لوگوں کو ایک ایک شناختی کارڈ پر کئی کئی گندم کی بوریاں دی ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت اپنی غلطیوں کا ازالہ کرتی اور شفاف انداز میں مستحق لوگوں میں امدادی سامان تقسیم کرتی مگر ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو متاثرہ لوگوں کی قطعناً پرواہ نہیں ہے۔ حلیم عادل شیخ عمر کوٹ کے سماجی رہنما جان شیر جونیجو، علی مراد دل، جاوید اعوان اور PRF کے رضاکاروں کے ہمراہ کھوکھراپار کے گوٹھ بٹھارو، گوٹھ سلیارو، یوسی گھپلو کے گوٹھ کرینجودڑ، گوٹھ امراڑ بھی گئے۔ متاثرہ لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کے حالات معلوم کئے۔ اس موقع پر لوگوں نے کہا کہ انتظامیہ نے ان کی جانب ذرا بھی توجہ نہیں دی ہے۔ ہمارے بڑوں میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ وہ اپنی جیب سے غذائی قلت سے متاثرہ بچوں کو پرائیویٹ ہسپتالوں میں داخل کروا سکیں جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں ان کی کوئی سنوائی نہیں ہے۔