ترکی کے حالیہ انتخابات پر دنیا بھر کی نظریں مرکوز تھیں۔ اقوام عالم کے قریباً قریباً تمام سیاسی پنڈتوں کو اس بات کا یقین تھا کہ ان انتخابات میں رجب طیب اردوان کو بھر پورسبکی کا سامنا کرنا پڑے گا ترکی میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دنگل میں کئی عالمی قوتوں نے براہِ راست حصہ لیا وہ تمام عالمی قوتیں جو مصر میں اخوان المسلون کی منتخب جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد ایک آمر کی پشتبانی کر کے جمہوریت کی دھجیاں بکھیر رہی ہیں۔ انہوں نے مصر کے بعد اب جسٹس اینڈڈویلپمنٹ پارٹی ترکی اور نہضت پارٹی تیونس کے خلاف اپنے ہتھکنڈے تیز کر دیے ہیں ترکی میں بلدیاتی انتخابات سے چند ہفتے قبل اردوان حکومت کے خلاف خوف ناک سکینڈل سامنے لائے گئے متعدد وزراء ان کے بچوں بلکہ خود اردوان اور ان کے صاحبزادے بلال کے درمیان ایک فون کال کی جھوٹی کہانی گھڑی گئی
ان پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے۔ مذمت کے نام سے عوام میں دینی اثر رکھنے والے فتح اللہ گولن کو ان کے سامنے لا کھڑا کیا گیا،نجی سکولوں کا عالمی نیٹ ورک رکھنے اور ملک کے اہم اداروں کو اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت کی تربیت دینے والے ان احباب نے بالخصوص پولیس اور وزارت داخلہ کے اندر خوب اثر و رسوخ حاصل کیا۔ اس اثر و رسوخ کو خود اردوان کی بھی حمایت حاصل تھی، اردوان کے پیش نظر یہ تھا کہ پولیس کو دینداری کی طرف لاتے ہوئے کرپشن سے پاک کیا جائے لیکن گذشتہ ڈیڑھ دو برسوں سے یہ لوگ خود طیب اردوان کو ہی زِک پہنچانے میں مصروف ہو گئے اہم حکومتی ذمہ داران کو بلا وجہ گرفتار کرنے کی کوششیں شروع ہو گئی تھیں اور یوں بڑھتے بڑھتے یہ اختلافات حالیہ انتخابات میں براہ راست مقابلے کی صورت اختیار کرگئے۔
اردوان حکومت سے دشمنی’ مخالفین کو اس حد تک لے گئی کہ حالیہ انتخابی مہم کے دوران شام کے بارے ایک اعلیٰ سطح حکومتی اجلاس کی کاروائی خفیہ طور پر ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا کے سامنے پھیلا دی گئی ان حالات مین دشمن ہی نہیں دوست بھی قیاس کر رہے تھے کہ اگر انتخابات میں اردوان کو شکست نہ بھی ہوئی تب بھی ان کے ووٹ بنک میں نمایاں کمی آجائے گی۔ لیکن انتخابی نتائج نے بڑے بڑوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا جب طیب اردوان کو پہلے سے بھی زیادہ ووٹ اور زیادہ نمایاں کامیابی حاصل ہوئی، 2009ء کے بلدیاتی انتخابات میں اردوان کو 38فیصد ووٹ ملے تھے،اپنوں اور بیگانوں کی دشمنی کے باوجود اب انہیں 46فیصد ووٹ مل گئے ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوان کا اصل کارنامہ ملک سے کرپشن نامی عفریت کا خاتمہ ہے اگر کسی بھی معاشرے میں مکمل نتائج حاصل نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود آج سے 15سال قبل اور آج قرکس جانے والوں کو وہاں جو ایک واضح فرق دکھائی دیتا ہے وہ اسی کرپشن کے عفریت پر قابو پانے کا نتیجہ ہے گو کہ مخالفین نے بھی الٹا حکومت پر کرپشن کے الزامات عائدکئے جس سے ترکی میں جاری اقتصادی ترقی کو بھی شدید دھچکا پہنچایا، ایک اندازے کے مطابق ان الزامات کے بعد ترک بنکوں کو 20ارب کا خسارہ برداشت کرنا پڑا لیکن جیسے ہی انتخابات میں جسٹس پارٹی کی واضح کامیابی کا اعلان ہوا نہ صرف سٹاک ایکسچینج اور بنکوں کو نئی روح ملی بلکہ ڈالر بھی ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا۔ ایک زمانے میں ایک ڈالر کے عوض ترک لیروں (کرنسی)کاگٹھاملا کرتا تھا۔ اب ایک ڈالر 2.15لیروں کے برابر رہ گیا ہے۔
Dollar
ترر کی اس وقت دنیا میں اقتصادی ترقی کے حامل 20اہم ترین ممالک میں شامل ہو گیا ہے ترکی میں اردوان حکومت سے قبل فی کس آمدنی اڑھائی ہزار ڈالر سالانہ تھی جواب ساڑھے 10ہزار ڈالر سالانہ سے تجاو ز کر چکی ہے۔ رجب طیب اردوان نے جتنی جلد اور جس طرح سے ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کیں ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے،گذشتہ سال فروری میں انہوں نے ایسی ترامیم کیں جن کے تحت اگر فوج کا سربراہ یا اعلیٰ فوجی افسران بھی کسی جرم میں ملوث ہونگے تو انہیں بلا تامل عدالتوں کا سامنا کرنا پرے گا ان ترامیم سے کمال اتاترک سے لیکر اب تک مسلسل وقوقع پذیر ہونے والے ان خونی انقلابات کا راستہ روکا جا سکے گا جن کے ذریعے ملک کی حکمرانی منتخب حکومتوں نہیں بلکہ بندوق برداروں کی رہی ہے۔
خود سابقہ فوجی سربراہان کے بقول ان ترامیم کے بعد اب فوج کی ساری توجہ اپنی اصل ذمہ داری یعنی دفاع وطن پر مرکوز رہے گی اب ترک حکومت کے سامنے اصل چیلنج اگست میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات ہیں۔ دستوری ترامیم اور نئے قوانین کے مطابق پہلی بار صدرِ مملکت کو بھی ارکان پارلیمان نہیں بلکہ ترک عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونا ہے اس سے پہلے اہم ترین بات یہ ہو گی کہ حکمران پارتی اپنا صدارتی امیدوار کسے بناتی ہے اس حوالے سے میرا تجزیہ ہے کہ دستوری ترامیم کے ذریعے صدارتی اختیارات میں اضافہ کر دیا جائے گا ملک میں صدارتی نظام کے قریب تر نظام متعارف کروایا جائے گا ۔ اس صورت میں یہ خیال بھی قوی تر ہے کہ وزیر اعظم رجب طیب اردوان اپنے عہدے سے مستعفی ہوتے ہوئے خود صدارتی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور وزارت عظمیٰ کیلئے ان کے دیرینہ ساتھی عبد اللہ گل یا پھر کسی اور امیدوار کو سامنے لایا جائے آئندہ چند ہفتے اس حوالے سے انتہائی اہم ہونگے۔
آپ کو یاد ہو گا حالیہ انتخابات سے قبل استنبول میں ایک جلسہ عام منعقد ہوا تھا ترک تجزیہ نگاروں کے مطابق ترک تاریخ میں اتنا عظیم الشان عوامی اجتماع کبھی نہیں ہوا تھا ، ان کے بقول اس جلسے میں ٢ ملین ”20لاکھ” افراد شریک ہوئے فضائی تصاویر اور ویڈیوز ہی نہیں اب تو انتخابی نتائج بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس موقع پر اردوان کا خطاب بھی دلیل اور جذبات کا مرقع تھا میں یہاں صرف انکے خطاب کا اختتام بتانا چاہوں گا آپ کو یاد ہو گا چند سال قبل اردوان نے ترکی کے عظیم شاعر محمد عاکف کے چند شعر پڑھے تھے تو ملک کے سیکولر قانون کے تحت انہیں 2سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور جیل میں بند کر دیا گیاتھا اب استنبول کے میدان میں وہی طیب اردوان تھا وہی شاعر اور وہی شعر اور صرف اردوان ہی کیا اس کے سامنے لاکھوں افراد بھی وہی الفاظ دہرارہے تھے”مسجدوں کے مینار ہمارے نیزے ہیں۔ مسجدوں کے گنبد ہمارے کنٹوپ ہیں۔ مسجدیں ہماری چھاونیاں ہیں’ اہل ایمان ہمارا لشکر ہیں۔ ہمارے ایمان کو کوئی نشست نہیں دے سکتا” آخر میں اردوان نے اپنی طرف سے اشعار میں اضافہ کرتے ہوئے اپنی تقریریوں مکمل کی” یہ اگر توپیں اور ٹینک بھی لے آئیں گے تب بھی ہمارے ایمانی قلعوں کو شکست نہیں دے سکتے”۔
Erdogan
اردوان نے دنیا کے ہر فورم پر باوقار طریقے سے اپنے آپ کو پیش کیا اسرائیل کی طرف سے فلسطینی مسلمانوں کی امداد کیلئے جانے والے بحری بیڑے (فریڈم فلوٹیلا)پر حملے پر اسکے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کے پیچھے اصل قوت اپنے رب پر کا مل ایمان کی ہی تھی اور آج اس کے رب ذولجلال نے اسے سرخروکیا ہے۔