پاکستان میں تھری جی اور فور جی کی نیلامی 23 اپریل کو ہو گی۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے بھی حکم جاری کر دیا ہے۔ اس موقع پر چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ پاکستان کی پانچ میں سے چار سیلولر کمپنیوں نے نیلامی میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور پندرہ فیصد زرضمانت بھی جمع کروا دیا ہے۔ اس نیلامی میں 1.3ارب ڈالر سے زائد کی رقم کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
عدالت کا حتمی فیصلہ آنے تک نیلامی کی رقم مجموعی قومی فنڈ(فیڈرل کنسولی ڈیٹڈ فنڈ) میں رہے گی۔ کیس کی اگلی سماعت مئی کے تیسرے ہفتے میں ہو گی۔ اس سے پہلے غیر ملکی خبررساں ایجنسی رائٹرز نے اپنی حالیہ رپورٹ میں لکھا تھا کہ پاکستان میں تھری جی اور فور جی لائسنسوں کی نیلامی کے ذریعے غیرملکی زرمبادلہ حاصل کرنے کا ہدف پورا نہیں ہو سکے گا۔ پاکستان کا مذکورہ لائسنسوں کی نیلامی کے ذریعے 22ارب ڈالر زرمبادلہ کا ہدف تھا لیکن اس نیلامی کے ذریعے صرف 85کروڑ ہی مل سکیں گے۔ رپورٹ کے مطابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار اس پر شدید برہم ہیں اور نیلامی کو ہی منسوخ کرنا چاہتے ہیں ۔ پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) نے رائٹرز کی رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے ۔ پی ٹی اے ترجمان کے مطابق چار سیلولر کمپنیوں کی جانب سے آنے والا رسپانس بہت حوصلہ افزا اور اطمینان بخش ہے۔ تھری جی ٹیکنالوجی لائسنس کی بنیادی بولی 295 ملین ڈالر جبکہ فورجی ایل ٹی ای لائسینس کی بنیادی بولی 210 ملین ڈالر رکھی گئی ہے۔
پی ٹی اے نے اس رپورٹ کے خلاف قانونی چارہ گوئی کا بھی اعلان کیا ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ تھری جی اور فور جی کیا ہے؟ ان کاآغاز کیسے ہوا؟ تھری جی اور فور جی میں ”جی” سے مراد ”موبائل ٹیکنالوجی کی جنریشن” ہے۔ون جی (موبائل ٹیکنالوجی کی پہلی جنریشن) کا آغاز 1980ء میںجاپان میں ہوا۔ ون جی میں اینالاگ ٹیکنالوجی استعمالی کی گئی اور ہوا کے ذریعے آواز کے پیغامات پہنچانے کی سہولت سب سے پہلے مہیا کی گئی۔ٹو جی ٹیکنالوجی 1991ء میں فن لینڈ میں متعارف ہوئی جس میں صاف وائس کالز، ایس ایم ایس، تصویری پیغامات اور ایم ایم ایس (ملٹی میڈیا میسجنگ سروس) کا آغاز کیا گیا۔ ٹو جی کے بعد 2.5جی آئی جس میں جی پی آر ایس (GPRS) اور ایج (EDGE) کے ذریعے موبائل فون پر انٹرنیٹ کی بہترین سپیڈ حاصل کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں موبائل انٹرنیٹ کیلئے یہی سروس استعمال کی جا رہی ہے۔ جی پی آر ایس سروس کے ذریعے انٹرنیٹ سپیڈ 15سے 20کلو بائیٹ فی سیکنڈ ہے۔تھری جی ٹیکنالوجی2001ء میں جاپان میں متعارف ہوئی ۔ دسمبر2001ء میں یورپ، مئی 2002ء میں جنوبی کوریا، جولائی 2002ء میں امریکہ جبکہ جون 2003ء میں تھری جی آسٹریلیا پہنچ گئی۔ آج چین، بھارت، شام، عراق، ترکی، کینیڈا ، بنگلہ دیش،کینڈا، عراق اور افغانستان سمیت دنیا کے تقریباً 150ممالک میں تھری جی استعمال ہو رہی ہے۔
3G Services
دنیا بھر میں تھری جی سروسز استعمال کرنے والے صارفین ایک ارب سے زائد ہیں۔ ممالک جیسے جاپان میں 81 فیصد ، امریکا میں 80فیصد اور جنوبی کوریا میں 70 فیصد سے زائد موبائل صارفین 3G ٹیکنالوجی سے مستفید ہو رہے ہیں۔تھری جی ٹیکنالوجی زیادہ تیز رفتاری سے ڈیٹا ٹرانسفر اور بہترین نیٹ ورک جیسی سروسز فراہم کرتی ہے۔ انٹرنیٹ تیز ترین براڈبینڈ سپیڈ پر فراہم کیا جا سکتا ہے جو کہ 512Kbps سے 3.1Mbps تک ہے۔ تھری جی کی مدد سے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ لائیو ویڈیو کانفرنس کی جا سکتی ہے یعنی جو جہاں موجود ہے وہیں سے ویڈیو کانفرنس کر سکتا ہے۔ موبائل پر ٹی وی پروگرام دیکھے جا سکتے ہیں۔ 3D گیمز کھیل سکتے ہیں، میوزک سن سکتے ہیں،انٹرنیٹ کی تیز ترین سپیڈ سے مستفید ہو سکتے ہیں، لوکیشن بیسڈ سروسز(LBS ) مہیا کی جا سکتی ہیں، GPSیعنی گلوبل پوزیشننگ سسٹم کے ذریعے دنیا بھر کے موسم، علاقہ جات اور ٹائم کے بارے میں فوری معلومات حاصل کی جا سکتی ہے، ٹیلی میڈیسن کے ذریعے دور دراز کے دیہی علاقوں میں صحت کے متعلق آگاہی اور معلومات دی جا سکتی ہیں۔
اس کی مدد سے ہی سکائپ، وائبر، ٹینگو، یاہو میسنجر (وائس کالز)، اور دیگر انٹرنیٹ سروسز بغیر کسی وقفے کے استعمال کی جا سکتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں تھری جی میں موبائل پر انٹرنیٹ کی سپیڈ ،وائی فائی جتنی ہوتی ہے۔آج تھری جی کی مدد سے اکثر ممالک نقل وحم، تعلیم، صحت اور مالیاتی خدمات کے فوائد حاصل کر رہے ہیں۔تھری جی کی کامیابی کے بعد فور جی کو متعارف کروایا گیا جو اس وقت موبائل کمیونیکیشن کیلئے سب سے تیز رفتار ٹیکنالوجی ہے۔ فور جی نہ صرف تھری جی والی سہولیات مہیا کرتی ہے وہیںاس کے ذریعے انٹرنیٹ کی رفتار 100Mbpsحاصل کی جا سکتی ہے۔ فور جی میں IP Basedوائس کالز، آن لائن گیمنگ اور ایچ ڈی سٹریمنگ جیسے فیچرز شامل ہیں۔فور جی اس وقت دنیا کے چند گنے چنے ممالک میں ہی دستیاب ہے اور اس کے ذریعے زیادہ تر موبائل انٹرنیٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیامیں 150سے ممالک تھری جی،کچھ ممالک فورجی سے مستفید ہو رہے ہیں جبکہ وطن عزیز پاکستان میںتاحال تھری جی کا بھی آغاز نہیں ہو سکا۔ تھری جی سروسز تو 2001ء میں متعارف ہوئیں لیکن ہمارے یہاں 2009ء میں تھری جی کی باتیں شروع ہوئیں ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ابھی تک تھری جی ٹیکنالوجی کے لائسنس کی نیلامی نہیں ہو سکی۔ موبائل پر ڈیٹاٹرانسفر کی تیز ترین سہولت میسر نہ ہونے سے پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ سابق چیئرمین پی ٹی اے فاروق سعید اعوان نے اگست 2012ء میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ تھری جی ٹیکنالوجی کی نیلامی میں تاخیر سے ملک کو 20 ارب روپے کا نقصان ہوا۔تھری جی ٹیکنالوجی کے لائسنس کی نیلامی سے حکومت کو نہ صرف3 ارب ڈالر کا فائدہ ہو گا بلکہ وطن عزیز پاکستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری بھی ہوگی۔غیرملکی کنسلٹنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تھری جی یا فور جی ٹیکنالوجی کی آمدسے معیشت بہت بہتر ہو جائے گی۔ اگر تھری جی لائسنس کی نیلامی میں مزید تاخیر ہوتی ہے تو جی ڈی پی ماہانہ 5ارب روپے کم ہو سکتا ہے۔
ملک میں تھری جی ٹیکنالوجی کی آمد سے 2020ء تک مجموعی پیداوار میں 380سے 1180ارب روپے کا فائدہ متوقع ہے۔ اگلے پانچ سالوں کے دوران مختلف شعبہ جات میں روزگار کے 9لاکھ نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک پاکستان میں تھری جی اور فور جی لائسنس کی نیلامی جلد سے جلد کی جائے تاکہ پاکستانی عوام بھی جدید ٹیکنالوجی کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں۔