جنوبی ایشیاء کے اس خطے پر ظلم و ستم کی تاریکیاں چھائی ہوئی تھیں کہ اﷲکو یہاں کی عوام پر رحم آ گیا، سندھ کی ایک عورت نے راجہ داہر کے ظلم و ستم کی داستان مسلمانوں کے اس وقت کے خلیفہ حجاج بن یوسف کو لکھ دی، مسلمان اس وقت ایک سوپر پاور کی طرح دنیا پر ابھر رہے تھے اور ہر جگہ اسلام سربلند ہو رہا تھا ایسے میں اس خط نے خلیفةالمسلمین کو سندھ پر اسلام کا جھنڈا لہرانے کے لئے لشکر روانہ کرنا پڑا،اس لشکر کے سپہ سالار ایک سترہ سالہ فوجی جرنیل محمد بن قاسم تھے، نہایت ہی دلیری اور جانفشانی سے راجہ داہر کے ظلم و ستم سے اس سرزمین کو آزاد کروایااور اس طرح سندھ کو باب الاسلام کہا جانے لگا۔وقت گزرتا رہا اور ایک ایک کرکے یہاں مسلمان بادشاہ حکمرانی کرتے رہے محمد بن قاسم نے 712ء میں سندھ فتح کیا تھا اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے مسلمان آتے رہے اور یوں ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا۔
سترھیوں صدی میں برطانوی لوگ تجارت کی غرض سے یہاں آئے مگر انکی نیت میں تجارت نہیں بلکہ اس سرزمین پر قبضہ کرنے کی تھی ،پہلے تاجر آئے پھر کچھ حالات ایسے بنا دیئے گئے کہ ان تاجروں کی سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر فوجی دستوں کی آمد شروع ہوگئی۔اس دوران ہندو،سکھ اور مسلمانوں نے ملکر 1857میں برطانوی سامراج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ایک جنگ کا آغاز کیا گیا جو تاریخ میں غدر اور جنگ آزادی کے نام سے یاد کی جاتی ہے، اس جنگ میں انگریزوں کو فتح حاصل ہوئی اور ہندوئوں نے بڑی چالاکی سے اس جنگ کا سارا ملبہ مسلمانوں کے متھے مار دیا اور انگریزوں کو یہ باور کروایا کہ انہیں اس بغاوت میں مسلمانوں نے دھکیلا تھا ،بات اصل یہ تھی کہ ہندو قوم مسلمانوں کی ایک ہزار سال کی حکمرانی سے جل بھن رہے تھے،انہیں بدلہ لینا تھا مسلمانوں سے ،اس بار انھیں موقعہ مل گیا تھا ،لہذا ہوا یہ کہ انگریزوں نے ہندوئوں کی بات پر یقین کرلیا اور مسلمانوں کو سخت اذیتیں دی گئیں۔ایسے میں مسلمان قوم کے سچے ہمدردوں کی ایک جماعت آگے آئی جس نے مسلمانوں کی اصل پوزیشن کو انگریزوں کے آگے رکھا ۔اور جب مسلمانوں نے دیکھا کہ اب انگریزوں کے نیچے دب کر مسلمانوں کا جنوبی ایشیاء کے دیگر مذاہب کے لوگ جن میں ہندو اور سکھ زیادہ ہیں ،انکے ساتھ اب رہنا ناممکن ہو گیا ہے تو مسلمان محمد علی جناح المعروف قائد اعظم کی بے پناہ دور اندیش قیادت میں مجتمع ہوگئے اور ایک الگ مسلم ریاست کے حصول کا مقصد دل میں لئے ایک جان ہوکر اس وقت کی سوپر پاور برطانیہ کے خلاف کھڑے ہوگئے اور پھر 27 رمضان المبارک 1368ہجری بمطابق 14 اگست 1947 کو وجود میں آگیا،مسلمان بہت خوش تھے کہ آخرکار مسلمانوں کی محنت رنگ لے آئی،اور ایک آزاد ریاست کہ جسکی بنیاد لاالہٰ الااﷲ تھی وہ حاصل کرلیا ہے۔
ایک طرف یہ خوشی تھی کہ پاکستان بن گیا ہے تو دوسری طرف ہجرت کا مرحلہ شروع ہوگیا تھا،متحدہ ہندوستان میں آباد مسلمان نومولود مسلم ملک پاکستان جلد از جلد پہنچنا چاہتے تھے جہاں انھیں آزادی ہوگی اپنی دینی فرائض کو سر انجام دینے کی،مگر جیسا کہ میں پہلے ذکر کیا، ہندو بنئے کو مسلمانوں کے غلام بنے رہنے کا بدلہ لینا تھا ، تو وہ کیسے یہ دیکھ سکتے تھے کہ مسلمان امن اور سکون نے پاکستان پہنچ جائیں، تو انھوں نے سکھوں کے ساتھ ملکر مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا،وہ ریل گاڑیاں جو مسلمانوں کو باحفاظت پاکستان لیکر جا رہی تھیں ان میں گھس کر مسلمانوں کا خون بہایا گیا،مسلمان عورتوں کو زبردستی روک کر ہندو اور سکھوں نے جبر١ً شادیاں کی گئیں ان مائوں اور بہنوں کی عزتیں لوٹی گئیں،بچوں کو یتیم کردیا گیا،بوڑھے ماں باپ سے انکا سہاراچھین لیا گیا مگر دنیا یہ عظیم ظلم دیکھتی رہی اور کفر ایک ملت ہے کا بھرپور ثبوت دیا گیا۔دنیا میں شاید ہی اس درجے کا ظلم ہوا ہوگا کہ پاکستان بننے کے ٤ دن بعد عید الفطر والے دن ہندوئوں اور سکھوں نے مسلمان عورتوں کو برہنہ کرکے انکے بھائیوں، باپ اور اولادوں کی خون میں لت پت لاشوں کے سامنے ناچ کر ایک دوسرے کو عید مبارک کہنے پر مجبور کردیا۔زمین اور آسمان کانپ اٹھا ہوگا یہ دیکھ کر مگر عالمی انسانی حقوق کے علمبرداروں کے کانوں میں جو’ تک نہ رینگی۔اسی پر بس نہ ہوا ، پاکستان بننے کے اگلے ہی سال ہندو بنئے نے پاکستان کی شہ رگ اور مسلم اکثریتی علاقے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرلیا،محمد علی جناح جو پاکستان کے پہلے گونر جنرل بنے ،اب کی بار انھیں بھی سمجھ آگیا تھا کہ لاتوں کے بھوت باتوں نے نہیں مانتے،فوراً پاکستان کے پہلے آرمی چیف جنرل گریسی کو حکم دیا کہ کشمیری بھائیوں کی مدد کی جائے مگر اس غدار آرمی چیف نے یہ کہہ کر انکا رکردیا ہے ہمیں اجازت نہیں ہے اور سب جانتے ہیں کہ اسے لارڈمائونٹ بیٹن نے ایسا کرنے سے منع کیا تھا ۔انڈیا نے ٧ لاکھ فوج کشمیر میں اتار دی جو کشمیری مسلمانوں کو صرف اس لئے خون کی ندیوں میں نہلارہے ہیں کیونکہ کشمیری مسلمان اپنا الحاق پاکستان سے چاہتے ہیں۔انڈیا کے اندر آج بھی مسلمانوں کو انتخابات میں اپنا نمائندہ کھڑا کرنے کی اجازت نہیں ہے، نہ ہی کسی بڑے تعلیمی یا کاروباری ادارے کا سربراہ مسلمان ہو سکتا ہے،دنیا کو سب سے بڑا جمہوری ملک اور سیکیولر ملک جتلانے والے بھارت کا اصل چہرہ یہی ہے کہ وہ مسلمان قوم کوکچھ بھی نہیں سمجھتا۔
India
بھارت نے آج تک کبھی بھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا، یہی وجہ تھی کہ جواہر لال نہرو نے پاکستان بننے کے بعد کہا تھا کہ مٹھی بھر بر سروسامان لیکر مسلمان ایک ملک کبھی بھی نہیں چلاپائیں گے اور کچھ ہی دنوں کے بعد بھارت میں دوبارہ ضم ہوجائے گا پاکستان کا وجود،مگر اﷲ کو کچھ اور ہی منظور ہے، یہ ملک آج بھی دنیا کے نقشہ پر موجود ہے اور بھارت کا سازشی دماغ اتنا بوکھلا گیا ہے کہ وہاں اگر ایک مچھر بھی مرجائے تو انکا بس چلے تو الزام آجائے گا کہ پاکستان نے مارا ہے۔پاک بھارت جنگیں ہوئیں، بھارت نے 1965میں رات کی تاریکی میں روشنیوں کے شہر لاہور پر حملہ کردیا اور انکا منصوبہ یہ تھا کہ صبح کو چائے لاہور جیم خانہ میں پیئں گے،مگر سلام ہے پاک فوج کے ان جانبازوں کا جنھوں نے بھارت کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیے اس سترہ روزہ جنگ میں بھارت نے ہر محاز پر منہ کی کھائی اور لاہور میں ناشتہ کرنے کا خواب دیکھنے والے پیٹ دیکھا کر بھاگ گئے۔٦سال بعد ایک منظم سازش کرکے بھارت نے پاکستان کو دولخت کردیا اس پر بھی دنیا نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی رکھی ،امریکہ جو خود کو پاکستان کا ہمدرد کہتا تھا اس نے پاکستان کو یہ کہہ کر بیواقوف بنانا چاہا کہ تمھاری مدد کے لئے ایک بحری بیڑہ روانہ کر دیا گیا ہے مگر اﷲ جانے وہ بحری بیڑہ کہاں غرق ہوگیا۔پاکستان اس غم میں چور تھا تو بھارت جشن منا رہا تھا۔بھارت نے کبھی بھی پاکستان کو سکون سے رہنے نہ دیا یہی وجہ تھی کہ سیاچن پر جنگ ہوئی، کارگل وار بھی اسی کا پیش خیمہ بنی۔کشمیر نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا چاہا ہے مگر 33کڑور خدائوں کو پوجنے والے ہندو بنئے نے ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔مگر ہمارے حکمران ہیں کہ بھارتی پیا ر میں مرے جارہے ہیں،موسٹ فیورٹ نیشن کا لقب اس قوم کو دیا جارہا تھا جہاں آج بھی ہماری نور فاطمہ نامی ایک خاتون مسز گپتا بنی آج بھی اس آس میں ہیں کہ کوئی مسلمان آئے گا اور انھیں ان درندوں سے آزاد کرائے گا۔
امریکہ اسرائیل اور بھارت کا گٹھ جوڑ پاکستان کے لئے خطرہ ہے مگر پاکستان بھی پوری طرح ہر قسم کے بیرونی خطرات سے نبٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بھارت کی سفاکی کے آگے دنیا چپ ہے،کیونکہ وہ یہ ظلم مسلمانوں پر کر رہا ہے اگر یہی مسلمانوں کی جانب سے ہو رہا ہوتا تو مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیا جاتا۔بھارت اگر مائوں بہنوں کی عزمتیں پامال کرے تو وہ برائی نہیں،اگر پاکستان کرکٹ کا ایک میچ جیت جائے اوراس پر بھارتی یونیورسٹی کے کچھ کشمیری طالب علم خوشی منائیں جسکی پاداش میں ان پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے تو یہ بھی کوئی مسئلہ نہیں اور اگر کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہے ہو اور مسلمان قوم ظلم و جبر کی تصویر بنی ہوئی ہو تو اگر یہ بھی دہشتگردی شدت پسندی نہیں ہے اگر یہ بھی ظلم نہیں ہو رہا تو قارئین سے میرا بس یہی سوال ہے کہ پھر ظلم کیا ہے دہشتگردی اور شدت پسندی پھر کسے کہتے ہیں …؟مجھے تو لگتا ہے کہ اگر بھارت،اسرائیل اور امریکہ کا مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک ظلم ،بربریت،شدت پسندی اور دہشتگردی کے ضمرے میں نہیں آتا تو پھر شاید مسلمان ہی دہشتگرد اور شدت پسند ہیں جو چپ چاپ یہ سب برداشت کررہے ہیں …… محترم قارئین،آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے۔