چند روز پہلے ملک کے کئی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے۔ سب سے بڑے واقعات دو تھے جن میں سے ایک سبی ریلوے اسٹیشن پر ٹرین پر دھماکہ تو دوسری طرف اسلام آباد کی سبزی منڈی میں دھماکہ۔ ان دو مقامات پر ہونے والی دہشت گردی میں مجموعی طور پر 50 سے زائد بے گناہ لوگ لقمہ اجل بنے تو درجنوں زخموں سے چور چور ہو کر ہسپتالوں میں پڑے کراہ رہے ہیں۔ اس دوران رحیم یار خان میں بھی ٹرین کو دھماکے سے اور بلوچستان میں گیس پائپ لائنوں کو بھی اڑانے کی کوششیں ناکام ہوئیں۔ دھماکوں کے بعد تحریک طالبان نے کہا کہ ان دھماکوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
دوسری طرف کئی خفیہ تنظیموں کی جانب سے ایسی دہشت گرد کارروائیوں کی دھمکیوں کا سلسلہ گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری تھا جن کے نتیجے میں لاہور اور کراچی میں کئی تاریخی مقامات کو بند کر دیا گیا۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ بلوچستان میں بھارت ہی دن رات سازشوں میں مصروف عمل ہے۔ بھارت نے بلوچستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ افغانستان میں دو درجن قونصل خانے اسی مقصد کے لئے قائم کر رکھے ہیں جہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی جاتی ہے، اس بات کا برملا اعتراف و اعلان گزشتہ حکومت بھی کرتی رہی ہے جبکہ موجودہ حکومت کے وزیراعظم نواز شریف نے نیویارک میں من موہن سنگھ سے انتہائی مشکل کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں بھی تذکرہ کیا تھا اور کہا تھا کہ بھارت بلوچستان میں اپنی مداخلت کو بند کرے۔ یہی بات وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی کہی اور کہا کہ ثبوت بھی موجود ہیں بھارت کی جانب سے پاکستان میں یہ مداخلت ہر روز بڑھ رہی ہے۔
اب تو یہ بات بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ پاکستان میں پولیو روکنے کی مہم پر مامور ٹیموں پر جو حملے ہوتے رہے ہیں، ان سب میں بھی بھارت ہی ملوث ہے۔ اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ بھارت دنیا کا وہ واحد پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کے شہریوں پر اس بات کی پابندی لگائی کہ وہ بھارت آنے والے تمام پاکستانیوں سے ”پولیو فری سرٹیفکیٹ” طلب کرے گا۔ بھارت نے پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کے لئے یہ سازش رچائی تھی جس کا اگلا مرحلہ پولیو ٹیموں پر حملوں اور پولیو ورکرز کے قتل کے ذریعے آگے بڑھایا گیا۔
بھارت کا یہ بھی کام دیکھئے کہ اس نے پاکستانیوں کے جو ”پولیو فری سرٹیفکیٹ” چیک کرنے ہیں ان کی تصدیق بھی بھارت کی قائم کردہ لیبارٹری ہی کرے گی۔ اب یہ ان کی صوابدید پر ہے کہ وہ کسے پاس کرتے ہیں اور کسے فیل۔ اور یہ بات تو کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارت نے اپنے ہاں آنے والے پاکستانیوں کے حوالے سے کس قدر سخت قوانین بنا رکھے ہیں۔ پاکستان آنے والے بھارتیوں کو ہر طرح کا پروٹوکول ملتا ہے ان کی عزت و تکریم ہوتی ہے جبکہ پاکستانیوں کا تو بھارت میں داخلہ پھر مشکل سے مشکل تر اور اب ناممکن بنایا جا رہا ہے۔
India
بھارت کی کوشش یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلاء سے پہلے پہلے وہ پاکستان کو اس قدر مشکلات سے دوچار کر دے کہ وہ کشمیر کی آزادی کے لئے تیز تر ہونے والے جہاد کی جانب توجہ ہی نہ کر سکے۔ بھارت ہمیشہ کی طرح پاکستان کو مستقبل میں اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھ کر انتہائی خوفناک اور خطرناک ہتھکنڈوں کو آزمانے پر لگا ہوا ہے اس لئے ایسے حالات میں جب بھارت کی پاکستان دشمنی ہر روز روز روشن کی طرف کھل کر سامنے آ رہی ہے، ہمیں بھی بھارت کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کو واضح کرنا ہے تاکہ ہم محفوظ رہ سکیں وگرنہ بھارت تو ہمیں ایک لمحہ بھی آزاد و خودمختار حالت میں قائم رہتا دیکھنا نہیں چاہتا ہے۔ بھارت کے ساتھ ہمارے بہت سے تنازعات میں سے اہم ترین مسئلہ کشمیر ہے۔
وزیراعظم جناب نواز شریف نے عنان حکومت سنبھالتے ہی بھارت کے ساتھ بنیادی تنازع یعنی مسئلہ کشمیر کو اپنی پہلی ترجیح میں شامل کر کے اسے جس طرح آگے بڑھانا شروع کیا ہے اس کے شاندار ثمرات و نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے بارسوخ و ممتاز امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک خصوصی و تفصیلی رپورٹ میں مسئلہ کے فوری حل پر زور دیا اور حل نہ ہونے کی صورت میں پاکستان و بھارت کے مابین ایٹمی جنگ چھڑنے کا بگل بجایا۔ اس کے ساتھ ساتھ عرصہ دراز کے بعد یورپی یونین نے بھی مسئلہ کے حل کے لئے ثالثی کی پیشگش کی اور بھارت پر زور دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرے۔ اس سے قبل حال ہی میں امریکی افواج کے سربراہان سمیت اعلیٰ عہدیدار بھی مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دے چکے ہیں۔ امریکہ نے چند ہی ہفتے پہلے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالثی کی بھی پیشکش کی تھی جسے بھارت نے ٹھکرا تو دیا لیکن دبائو بڑھ گیا۔ اسی طرح عرصہ دراز بعد مسئلہ کشمیر برطانوی پارلیمنٹ میں بھی زیربحث لایا گیا۔
وزیراعظم نواز شریف نے ہر عالمی و قومی فورم میں مسئلہ کشمیر کا جس انداز میں ذکر و وکالت شروع کی ہے وہ لائق تحسین ہے اور اس کے شاندار ثمرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ بھارت پر دبائو میں اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستانی موقف کو عالمی سطح پر عرصہ دراز بعد پذیرائی مل رہی ہے۔ اگر حکومت پاکستان کشمیر کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر منظم انداز میں مخلصانہ کوششیں کرے تو مسئلہ بہت جلد حل ہو سکتا ہے۔
اس موقع پر بھارت کو تجارت کے لئے پسندیدہ قرار دینے کی باتیں کر کے اس کے ساتھ تجارتی راستے کھولنے اور اسے افغانستان و وسط ایشیا تک رسائی کے تذکرے بند کرنا ہوں گے۔ حکومت نے اگر کشمیر پالیسی میں بہتری اختیار کی ہے تو اس کے لئے جو جو تدابیر ہو سکتی ہیں انہیں ضرور زیرغور لانا ہو گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ ایک طرف کشمیر کے حوالہ سے دنیا بھر میں وکالت کریں۔ اسے حل کرنے کے لئے زور دیں اور دوسری طرف کشمیر پر قابض بھارت سے وہی بجلی خریدنا شروع کر دیں جو وہ کشمیر کے دریائوں کا پانی روک کر اور پھر اسی پانی سے بنا کر ہمیں فروخت کرے۔ ماہرین آب اسی لئے تو کہتے ہیں کہ اگر بھارت سے بجلی خریدی گئی تو بھارت کے ساتھ پاکستان کا پانی اور کشمیر کا مسئلہ اور مقدمہ ختم ہو کہ رہ جائے گا۔ اب ہمیں مسئلہ کشمیر بھی حل کرانا ہے لیکن آنکھیں کھو ل کر اور دوست پالیسیاں اپنا کر۔ ورنہ ساری محنت رائیگاں ہی جانے کا خطرہ ہے۔