صرف 4 لوگ

Pakistan

Pakistan

پورے ملک میں اداروں کی تباہی کے ساتھ ساتھ عوام کی سوچ کو بھی منفی بنانے کے ایجنڈے پر کام شروع ہو چکا ہے این جی او کے کردار سے لیکر حکومتی فلاحی اداروں تک لوٹ مار کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور ہر فرد اس دوڑ میں آگے بڑھنے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے وزرا کی فرعونیت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے چند خیر خواہوں کو نوازنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کررہے اور انکے نیچے کام کرنے والے افسران کی رعونیت بھی کسی سے کم نہیں ہے۔

تو اور ہمارے بعض افسران اپنے وزیر کو بھی کسی کھیت کی مولی نہیں سمجھتے آپ بہت دور نہ جا ئیں پنجاب کے محکمہ ایکسائز کو ہی دیکھ لیں جہاں نہ صرف وزیر اور انکے ڈی جی کی بول چال تک بند ہوچکی ہے بلکہ وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے اسی طرح پاکستان بھر میں متعدد محکموں کے افسران اپنے وزیروں کو گھاس تک نہیں ڈالتے جس طرح وزیر الیکشن جیتنے کے بعد اپنے حلقہ کے عوام کو بوجھ سمجھتے ہیں بلکل اسی طرح کا رویہ انکے ساتھ حکومت میں رکھا جارہا ہے اور کوئی کھل کر ان کے خلاف نہیں بولتا بلکہ سب تماشہ دیکھنے میں مصروف ہیں ان حکومتی وزیروں اور اراکین اسمبلی نے عوام کا جو حشر کررکھا ہے۔

Inflation

Inflation

اس پر بھی سب خاموش ہیں مہنگائی نے غریب انسان کا جینا مشکل کردیا ہے جبکہ مرنا اس سے بھی مشکل ہوچکا ہے اور زندگی کی سانس کو بحال رکھنے کی اسی کش مکش میں ہر فرد کی توجہ لوٹ مار کی طرف ہوچکی ہے یہی وجہ ہے کہ ملاوٹ زدہ اشیاء کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے کمیشن مافیا کا ہر طرف راج ہے اور تو اور ایک جائز کام کروانے کے لیے بھی سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور آخر کار جائز کام اور اپنا حق مانگنے والے کو اپنا کام بھی ناجائز ہی محسوس ہونے لگتا ہے اور جب کبھی موقعہ ملنے پروہ کسی ملزم کی طرح ڈرتا ہوا مذکورہ وزیر سے مل ہی لیتا ہے۔

تو اس وقت اسے ایسا رویہ برداشت کرنا پڑتا ہے کہ یا تو وہ اپنا حق مانگنا ہی چھوڑ دیتا ہے یا پھر کسی اور راستے کا انتخاب کرلیتا ہے ہمارے اپوزیشن لیڈروں کو ان سب باتوں کا علم ہونے کے باوجود کچھ نہیں کرتے اور کان لپیٹ کر دوسری طرف نکل جاتے ہیں پاکستان میں اس وقت اگر کوئی شور مچا رہا ہے تو وہ شیخ رشید ہے جو ہر جگہ اور ہر وقت عوامی مسائل کی بات کرتا ہے ابھی کل ہی کی بات ہے۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن متحد نہ ہوئی تو حکومت سب کو”کھا”جائے گی ،مجھے حکومت کے خلاف احتجاج کیلئے 4کروڑ نمازی نہیں حکومت کا سیاسی جنازہ اٹھانے کیلئے 4لوگ ہی چاہئیں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد کر گئی تو پھر اللہ ہی حافظ ہو گا’اپریل سے دسمبر تک نوازشریف کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے وہ یا تو رہ جائے گا یا گھر چلا جائے گا ‘میں اکیلا ہی ون مین آرمی ہوں اور سب کو ایل بی ڈبلیو کروں گانوازشریف دور میں ہر پاکستانی 5550کا مقروض ہو گیا۔

شیخ رشید نے اپنی سیاست کا آغاز جس غربت کی دلد ل سے کیا تھا وہ چاہتے ہیں کہ اس دلدل سے عوام کو نکالیں اگر اسی طرح ہمارے باقی کے سیاستدان بھی بن جائیں تو ملک میں راتوں رات تبدیلی کا عمل شروع ہو جائیگا اور اس کے لیے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا بھی بہت بڑا رول ہے کہ جس طرح کی سیاست کا آغاز انہوں نے کیا خود کوئی عہدہ لینے کی بجائے ورکروں کو نوازا اور پھر ان ورکروں سے عام ورکروں کے رابطے بحال ہوگئے اور ایم کیو ایم بھی مضبوط ہوگئی اگر الطاف حسین واپس پاکستان آتے ہیں تو حکومت میں شامل ہونے کی بجائے شیخ رشید اور فیصل رضاء عابدی کے ساتھ ملکر ملک کو اندھیروں سے نکالنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ تینوں جب میدان میں نکلیں گے تو پھر باقی کے بھی جو عوامی خدمت کے دعویدار ہیں وہ خود بہ خود ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔

پھر پاکستانی قوم پیچھے کیسے رہ سکتی ہے اور رہی ایک کروڑ نمازیوں کی تلاش وہ نہ جانے کب اکٹھے ہوں اور کب مولانا طاہر القادری صاحب ان کی امامت کروائیں کیا ہی بہتر ہو کہ مولانا طاہرالقادری صاحب صرف چارلوگو ں کی جماعت کا اعلان کرکے میدان میں اللہ اکبر کی صدا بلند کریں کیونکہ جنازہ اٹھانے کے لیے چار ہی افراد کی ضرورت پڑتی ہے باقی تو ثواب کی نیت سے ساتھ شامل ہوتے ہی رہتے ہیں۔

قوم کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ ابھی بھی چند انگلیوں پر گنے جانے والے لوگ انکے حقوق کی بات کرتے ہیں جب یہ بھی نہ رہیں گے تو پھر عوام کی کھال کے جوتے پہنے جائیں گے وہ بھی مردہ نہیں زندہ لوگوں کی کھینچ کر اس لیے جو عوام کی بات کرتے ہیں وہ عوام کی خاطر پہلے خود اکٹھے ہو جائیں اسکے بعد قوم ان کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار بن جائیگی ورنہ قوم کی باتیں کرکے قوم کو بیوقوف بنانے والوں کی نہ پہلے کمی تھی نہ اب ہے کیونکہ امیدوحسرت کی کرنیں جب ڈوبنے لگتی ہے اورمایوسیوں کا سمندر ٹھاٹیں مارنے لگتا ہے تو اس وقت اندھیرے کا وقت کاٹنا بہت مشکل ہوجاتا ہے مگر جب روشن صبح کا آغاز ہوتا ہے تو پھر اندھیرے کے زخم تکلیف تو بہت دیتے ہیں مگر بھول جاتے ہیںاس لیے کیا ہی بہتر ہو کہ ہمارے حقوق کی بات کرنے والے یہ چند سیاستدان ہمیں ہمیشہ یاد رہیں نہ کہ وہ بھی کسی اندھیری راہوں میں گم ہوجائیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر