توانائی بحران کا خاتمہ موجودہ حکومت کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔ جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو اس وقت ملک میں لوڈشیڈنگ کی بہت خراب صورت حال تھی ۔ملک میں بجلی آنے کا نام نہیں لیتی تھی ۔ دیہاتوں میں تو لوڈشیڈنگ 20گھنٹے تک جا پہنچی تھی۔ ان حالات میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے بجلی کی بحالی اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے مختلف اقدامات کئے جن میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ،مختلف منصوبوں کے لئے حکومتی فنڈزکی منظوری و فراہمی اور صوبوں کے ذمے بجلی کے بقایا جات کی ادائیگی میں سست روی کی حوصلہ شکنی شامل تھا۔ حکومت نے چین کے ساتھ بجلی کے 16منصوبوں پر دستخط کئے ہیں۔ بجلی کے جو منصوبے مکمل ہوئے ہیں ان میں سے ایک گدوتھرمل پاور پلانٹ بھی ہے۔ رواں ہفتے میں وزیراعظم نواز شریف نے پاور پلانٹ کے دو نئے یونٹس کا افتتاح کیا۔
منصوبے کا آخری یونٹ بھی اگلے ماہ کام شروع کر دے گا۔ گدو کے تینوں منصوبوں سے 486 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔پاورپلانٹ کا منصوبہ سات ماہ قبل ہی مکمل ہو گیا جس پر وزیراعظم نے ملازمین کے لئے تین مہینے کی بنیادی تنخواہ کے برابر بونس کا اعلان کیا ۔ اس موقع پر وزیراعظم نے دیامیر اور بھاشاڈیم پر بھی کام شروع کرنے کا اعلان کیا۔ وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ چین کے دوران پاکستان اور چین کے کنسورشیم میں 1320میگاواٹ منصوبے کے دستاویزات کا تبادلہ ہوا۔ منصوبے کے مطابق چینی کنسورشیم ساہیوال میں660،660 میگاواٹ کے 2 بجلی کے کارخانے لگائے گا۔ اس پر کام کا آغاز مئی میں ہوگا جبکہ یہ منصوبہ 2016تک مکمل ہو گا۔425 میگاواٹ کا ایک اور پراجیکٹ نندی پور پاور پراجیکٹ بھی اسی سال کے آخر تک کام شروع کر دے گا۔دوسری طرف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خیبر پختونخوا میں 300چھوٹے ڈیم بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔
منصوبے کے مطابق 350نالوں پر 300کے قریب چھوٹے ڈیم بنائے جائیں گے جس سے نہ صرف صوبے میں سستی بجلی ملے گی بلکہ پورے ملک کو بھی بجلی مہیا کی جا سکے گی۔کالام میں بھی چھوٹے ڈیم پر کام جاری ہے۔مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی حکومت چھوٹے ڈیموںپر کام تو کر رہی ہے جو خوش آئند بات ہے لیکن 3600میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے والے کالاباغ ڈیم کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ کالاباغ ڈیم کے لئے زمین کا انتخاب 1955ء میں ہی کر لیا گیا تھا۔ اس کیلئے ضلع میانوالی میں واقع کالاباغ کا مقام منتخب کیا گیا۔ڈیم کی 1984ء میںرپورٹ تیار کی گئی جس میں اس کے معاشی فوائد اور تکنیکی باریکیوں کا جائزہ لیا گیا۔ پن بجلی کے اس منصوبے سے2400میگاواٹ بجلی حاصل ہونی تھی جسے بعد میں 3600میگاواٹ تک بڑھایا جا سکتاتھا۔ ڈھائی سال کے عرصے میں اس کی تمام کاغذی کارروائی مکمل کر لی گئی۔ اس کی تکمیل کیلئے چھ سال کا عرصہ درکار تھا اور امید تھی کہ یہ اپریل 1993ء میں اپنے کام کا آغاز کر دے گا۔
یہ منصوبہ بھی دیگر منصوبوں کی طرح سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا اور اس کا آغاز ہی نہ ہو سکا۔ نواز شریف نے اپنے پچھلے دور حکومت میں کالاباغ ڈیم بنانے کا اعلان کیا گیا لیکن صوبوں کی بے جا مخالفت کے باوجود انہیں یہ اعلان واپس لینا پڑا۔مشترکہ مفادات کونسل کے آٹھ میں سے سات ارکان نے 1998ء میں کالاباغ کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی حمایت کی تھی۔ پاکستان کے سابق صدر اور سابق آرمی چیف پرویز مشرف نے 2005ء میں کہا تھا کہ وہ جلد کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان کریں گے لیکن بعد میں وہ بھی اس کی جرأت نہ کر سکے۔ اسی طرح نومبر 2012ء میں لاہور ہائیکورٹ نے بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔
Kalabagh Dam
کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا یہ فیصلہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عمر عطاء بندیال نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد سنایا تھا۔ عدالت نے حکومت کوکہا تھا کہ وہ آرٹیکل ایک سو چون کے تحت اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے کالا باغ ڈیم بنائے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ حکومت مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات کی روشنی میں ڈیم تعمیر کرے۔سابق وزیراعلیٰ خیبر پی کے و سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک کے مطابق یہ بات غلط ہے کہ خیبر پی کے کی عوام کالاباغ ڈیم بنانے کے مخالف ہیں۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے صرف خیبر پی کے میں ہی ریفرنڈم کروا لیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ورلڈ بنک نے بھی کہا تھا کہ 80کی دہائی کے آخر میں پاکستان میں ایک نیاڈیم ہونا چاہیے جو کہ کالا باغ ڈیم تھا۔ 2005ء میں ڈیم کی تعمیر پر 6.1ارب ڈالر لگنے تھے لیکن اب اس کی تعمیری لاگت دس ارب ڈالر سے بڑھ گئی ہے ۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر میں غیر ضروری تاخیر سے اس کی لاگت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اس وقت تک فزیبلٹی سٹڈی، کنسلٹنسی، ملازمین کی تنخواہوں ، رہائشی کالونی کی تعمیر اور مشینری کی خریداری پر اربوں خرچ ہو چکے ہیں ۔اب تک کالاباغ ڈیم کی تعمیر نہ ہونے سے ملکی معیشت کو 40ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا تھا۔ کالاباغ ڈیم بننے سے صوبہ سندھ کی 8 لاکھ ایکڑ، پنجاب کی6لاکھ اور پختونخواہ کی 5لاکھ ایکڑ بنجراراضی قابل کاشت ہو گی۔ پورے ملک میں پیداوار دوگنا ہوگی جبکہ ملک میں بھارت کی آبی دہشت گردی سے ہر سال سیلاب آتا ہے جس سے لاکھوں ایکڑ اراضی، فصلیں اور لاکھوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ کالاباغ ڈیم بننے سے یہ پانی ڈیم میں ذخیرہ ہو جائے گا اور ہم تباہ کاریو ں سے بھی بچ جائیں گے۔کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کی آمدن میں 15فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر صرف پانچ سال میں ہو سکتی ہے اور یہ ڈیم پانچ سال میں ہی میں اپنی لاگت پوری کر لے گا۔ کالاباغ ڈیم سے بننے والی بجلی کی فی یونٹ قیمت دو سے تین روپے تک ہو گی۔ کالاباغ ڈیم سے 3600میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی جس سے وطن عزیز پاکستان سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور بجلی نہ ملنے کی وجہ سے برسوں سے بند انڈسٹری کام شروع کر دے گی۔ ملک کے بیروزگار نوجوانوں کو روزگار ملے گا اور پاکستان ترقی کی نئی شاہراہ پر گامزن ہو جائے گا۔
بھارت نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر رکوانے کیلئے ہمارے ملک کے کئی سیاسی لیڈروں اورماہرین میں اربوں روپے تقسیم کئے تاکہ یہ عظیم الشان منصوبہ مکمل نہ ہوسکے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام پاکستانی کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنے کی بجائے اس کی تعمیر کیلئے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ یہ پاکستان کی بقا کا منصوبہ ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ کالاباغ ڈیم جیسے عظیم منصوبے پر رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر تشہیری مہم چلائے ۔ حکومت پاکستان کو بھی ہائیکورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے اس کی فوری تعمیر شروع کروا دینی چاہیے تاکہ ملک پاکستان اس کے فوائد و ثمرات سے مستفید ہو سکے۔