پاکستان کو معرض وجود میں آئے 65سال ہوچکے ہیں ۔ کسی بھی قوم و ملک کی ترقی اور استحکام کے لیئے اتنے سال بہت ہوتے ہیں اگر اس ملک کے حکمرانوں میں آگے بڑھنے کا جزبہ اور لگن ہوتی تو آج میرا ملک بھی ترقی کی شاہراہوں پر گامزن ہوتا ۔۔ مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا ۔ کبھی اس ملک کو ناہل حکمرانوں سے واسطہ پڑا تو کبھی حالات ایسے بدلے کہ ترقی کا خواب تو ٹوٹا ہی امن و امان کو بھی نظر لگی۔
اس ملک میں ایسے ایسے عجیب و غریب کارنامے ہوئے کہ عقل حیران و ششدر رہ گئی ۔ سب سے زیادہ مذہبی منافرت پروا ن چڑھی۔ پھر سیاسی رنجشیں اپنا کام دکھاتی رہیں اس کے بعد صوبائی اور وفاق کے درمیان چپقلش رہی ۔ کہیں حکومت نت نئے شوشے چھوڑتی رہیں تو کہیں انفرادی طور پر شہرت حاصل کرنے کے لئے مخصوص لوگوں نے ٹوپی ڈراموں کا سہارا لیا ۔ اس قسم کی داستانیں اتنی طویل ہیں کہ ان پر صفحوں کے صفحے سیاہ کیئے جاسکتے ہیں ۔سیاہ اس لئے کہ بہت سے انفرادی اور اجتماعی کام ایسے تھے کہ ان میں تعریف کا پہلو کم او رتنقید کا پہلو زیادہ نکلتا ہے ۔ خواہ سیاست دانوں کے مضحکہ خیز بیانات ہوں ان کے سکینڈل ہوں یا پھر ان کی کرپشن کی ہوش ربا کہانیاں۔
عوام کس قسم کے مسائل کا شکار ہے کس ذہنی اذیت اور کیفیت سے گزر رہی ہے اس سے قطع نظر ملک و قوم کی ساکھ کو داو پر لگانے والے اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں ۔ ان میں میڈیا اپنا کردار خوب نبھا رہا ہے ۔ میڈیا نے پوری عوام کو نہ صرف ایک تشنج میں مبتلا کر رکھا ہے بلکہ عوام کے ہوش و حواس چھین کر ان کو ذہنی مریض بنانے کی طرف لے جارہا ہے ۔نت نئی کہانیوں سے تو اب عوام بھی چکرا کر رہ گئی ہے مگر وہ ان سے ڈراموں کو اور ان کے کرداروں کو بھی خوب پہچان گئی ہے۔
جھوٹ بولنا اور حق بات کو چھپانا تو اب جیسے ہرایک کی مجبوری بنتا جارہا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ملالہ پر ایک تحریر لکھی۔ حامد میر کی کہانی اور ملالہ کی کہانی میں کیا حقیقت ہے او رکیا فسانہ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اس ویب سائیٹ نے جس کے ایک لاکھ سے زیادہ لائیک ہیں۔ میرا مضمون چھاپتے ہوئے کچھ ایسی سنسنی خیزی والی پوسٹ بنائی کہ مجھے بھی لگا کہ شاید یہ میری تحریر نہیں ہے ۔اس لئے کہ اس پر بے شمار کمنٹ آنے شروع ہوگئے میںنے احتجاجا ان کو لکھا کہ میں نے تو ایک سادہ سی تحریر لکھی تھی آپ نے اس کو اتنی اشتیال انگیز بنا دیا۔۔
Newspaper
ایسا کیوں کیا ، تو ان کا جواب تھا کہ اگر ہم ایسا نہ کرتے تو لوگ آپ کی تحریر نہ پڑھتے ہمیںلائیک اور کمنٹ لینے کے لیے یہ سب کرنا پڑتا ہے ساتھ ہی ایک اور اخبار کی تحقیق کا حوالہ دیا کہ اس نے ملالہ پر جو تحقق کی تھی وہ محض ایک مفروضہ تھی اور اس میں کوئی حقیقت نہیں تھی ۔۔ ہمیں یہ سب کرنا پڑتا ہے ورنہ لوگ پڑھیں گے نہیں ، گویا ہر خبر اب سنسنی خیزی لیئے ہوئے ہو تو ہی لوگ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
اب اس طرح کا ایک اور سنسنی خیز واقعہ حال ہی میں ہونے والا حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہے ۔ اس کے پیچھے کون ملوث ہے کس کا ہاتھ ہے دہشت گرد کون تھے یہ وہ سوال ہیں کہ جن کے جواب آنے سے پہلے ہی پاکستانی فوج کو اس میں ملوث کر کے بدنام کیا جارہا ہے ۔ اس سلسلے میں جیو ٹی وی کا کردار انتہائی قابل مذمت ہے ۔ اس نے جس طرح باربار پاک فوج کے بارے میں خبر چلائی اور عوام میں فوج کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کی وہ کسی بھی طرح سے قابل قبول نہیں ہے۔
اس سلسلے میں سوشل میڈیا کا کردار کافی مثبت رہا ہے جس کی تعریف کیئے بنا رہا نہیں جاسکتا۔ کسی بھی ملک کی فوج اس ملک کا سرمایہ ہوتی ہے او رایک اہم ستون کے طور پر جانی جاتی ہے اور پاکستان کی فوج ہو یا ایس ائی ایس کا ادارہ دونوں ہی باوقار اور قابل احترام ہیں۔ ملک و قوم کے لیئے ان کی قربانیاں ناقابل بیان ہیں۔ افسو س اور دکھ ہوتا ہے کہ ہماری پاک فوج پر یوں کیچڑ اچھالا جارہا ہے پاک فوج پاکستان کے دفاع میں ہی نہیں بلکہ قدرتی آفات کے موقع پر اور ہر مشکل گھڑی میں عوام کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے ۔مگر المناک پہلو تو یہ ہے کہ کبھی اس سے شہادت کا عظیم رتبہ چھیننے کی بات ہوتی ہے تو کبھی اس پر قاتلانہ حملے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔
اور پھر اس حملے میں تھوڑا مذہب کا تڑکا لگانے کے لئے عامر لیاقت صاحب بھی میدان میں کود پڑے فرماتے ہیں حامد میر صاحب نے گولیاں لگنے کے بعد کلمہ شہادت پڑھا ۔ پاکستان زندہ باد کے فلگ شگاف نعرے بھی لگائے ۔۔ چلیں ہم یہ تو یقین کرسکتے ہیں کہ کلمہ شہادت ضرور پڑھا ہوگا مگر اس حالت میں جبکہ جسم میں اس قدر گولیاں پیوست ہوچکی ہوں نعرہ لگانے کی ہوش کس زی ہوش کو ہو سکتی ہے۔
جہاں تک حامد میر پر قاتلانہ حملے کی بات ہے تو اس میں کافی تضاد پایا جاتا ہے ۔ جیو کی ایک رپورٹ کے مطابق حامد میر صاحب کو 6 گولیاں لگیں 2 ران پر ایک کندھے کے نیچے اور ایک چھو کر گزر گئی تین گولیاں نکال لی گئی تھی اور تین ابھی نکالنا باقی تھیں ، حامد میر صاحب تو کسی سپر مین سے کیا کم ہوں گے کہ اتنی گولیاں کھا کر بھی خون کا ایک قطرہ ان کی گاڑی میں نہیں ٹپکا ۔ ورنہ جیو والے تو اگر کہیں خون کا ہلکا سا بھی دھبا ہو تو اس کو بلیک اینڈ وائیٹ کر کے بھی دکھا دیتے ہیں ۔۔ مگر یہاں تو اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی صاف شفاف گاڑی ۔ بس چند ٹوٹے ہوئے شیشے ۔ہت شور سنتے تھے کوچہ میں دل کا جو چیرا تو اک قطرہ خوں کا نہ نکلا۔۔
پھر جائے وقوعہ سے 9گولیوں کے خول ملے اب یہ کیا معجزہ ہوا کہ 3 گولیاں 6ہوئیں ۔۔۔ٹوٹل 9ہیں یا پھر 3+6+9 ہیں واللہ عالم بالثواب خیر جو بھی ہو ہم تو تمام صحافیوں کی زندگی اور ایس آئی ایس کی بہترین ساکھ کے لیئے دعا ہی کر سکتے ہیں۔