بھارت میں انتخابات کا طویل مرحلہ جاری ہے جو اگلے ماہ یعنی مئی کی 12 تاریخ تک جاری رہے گا۔ اس موقع پر بھارتی حکام کی جانب سے ساتھ ساتھ اعلان کیا جا رہا ہے کہ انتخابات کے وقوع پذیر مراحل نہ صرف بخیروخوبی مکمل ہو رہے ہیں بلکہ ووٹ ڈالنے کی شرح بھی حیران کن حد تک کافی زیادہ دکھائی جا رہی ہے۔ بات صرف اتنی ہی نہیں ہے، بھارت نے ملک کے ان تمام علاقوں میں جہاں آزادی کی تحریکیں عروج پر ہیں، ہونے والی پولنگ کے نتائج بھی بہت زیادہ دکھائے ہیں جو حیران کن ہے۔ اب چونکہ دنیا نے یہ پہلے سے تسلیم کر رکھا ہے کہ بھارت انتخابات کے انعقاد اور نتائج کے حوالے سے جو کچھ کہے گا، وہ مانا جائے گا اس لئے اس معاملے میں دوسری کوئی رائے ممکن ہی نہیں۔
بھارت کی وہ تمام ریاستیں جہاں دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور ترین تحریک آزادی چلانے والے نکسل آزادی پسند برسرپیکار ہیں اور جہاں فوج اور پولیس پر بھی تابڑ توڑ حملے ہوئے اور جن میں بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکار ہلاک و زخمی بھی ہوئے، لیکن وہاں بھی کامیاب پولنگ کا اعلان کر دیا گیا۔ ایسا ہی اعلان مقبوضہ جموں کے حوالے سے بھی کیا گیا جہاں مسلمان اور ہندو آبادی تقریباً برابر برابر ہے۔ یہاں کے ہندو تو لازمی طور پر ووٹ ڈالنے کیلئے نکلے ہوں گے لیکن بیشتر مسلمان ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ مقبوضہ جموں کے مسلمانوں کے دل بھی مقبوضہ وادی کے مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور جب کبھی مقبوضہ وادی میں مظالم کی آندھی تیز ہوتی ہے یا مقبوضہ وادی کے حریت لیڈر مقبوضہ جموں کے مسلمانوں کو اپنے حوالے سے احتجاج و ہڑتال کی کال دیتے ہیں تو یہاںکے مسلمان اس پر ہمیشہ لبیک کہتے ہیں۔
بھارت کے ان انتخابات کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں زبردست عوامی مہم چل رہی ہے۔ تمام حریت رہنما خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو،سبھی اس نکتے پر متفق و متحد ہیں کہ بھارتی آئین کے تحت انتخابات میں حصہ لینا کسی صورت درست نہیں ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی تمام حریت قیادت کو پابند سلاسل کر دیا ہے۔ سب سے بڑے رہنما سید علی گیلانی نظر بند ہیں، تو یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، اشرف صحرائی، مشتاق الاسلام سمیت 200سے زائد چھوٹے بڑے قائدین جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیئے گئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے تقریباً سبھی علاقوں میں مقامی لوگ ان تمام پارٹیوں کے خلاف بھی میدان میں ہیں جو انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور ان پارٹیوں کے جلسے جلوسوں میں نہیں بلکہ ان کے قائدین پر بھی زبردست سکیورٹی کے باوجود جگہ جگہ پتھرائو اور عوامی حملے ہو رہے ہیں۔ کولگام میں کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کے دورے کے خلاف ہڑتال کی گئی جس کے دوران کیموہ میں پتھرائو کے واقعات پیش آئے جبکہ بارہمولہ میں نیشنل کانفرنس کے ورکروں کے قافلے کو ‘سنگسار’کیاگیا جس کے بعد وہاں پولیس کی طرف سے آنسو گیس کی شیلنگ ہوئی۔ اس سے قبل کٹھ پتلی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ دوسرے لیڈروں کے ہمراہ ضلع کولگام کے مختلف علاقوں میں پبلک ریلیوں سے خطاب کرنے والے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ بانڈی پورہ کے کئی علاقوں میں نیشنل کانفرنس کے صدر کے مجوزہ دورے کے باعث نوجوانوں کی کثیر تعداد نے سمبل، نائد کھائی، حاجن علاقوں میں سڑکوں پر آ کر احتجاجی مظاہرے کئے پولیس نے نوجوانوں کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے گولے داغے جسے ان علاقوں میں افراتفری اور خوف و دہشت کا ماحول رہا۔اگر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انتخابات کے خلاف بائیکاٹ مہم جاری ہے تو دوسری طرف کشمیریوں سے زبردستی ووٹ ڈلوانے کیلئے لاکھوں فورسز اہلکار میدان میں اتار ے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں24 اپریل سے شروع ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے لئے ہی سی آر پی ایف اور کشمیر پولیس نے مشترکہ طور پر سرینگر شہر کے وسطی علاقہ کورٹ روڈ میں کریک ڈائون کر کے گھروں اور راہ گیروں کی تلاشی لی۔ سرینگر کے پارلیمانی حلقے میں 30 اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گے جبکہ اس سے قبل 24 اپریل کوبھی اس حلقے کیلئے ووٹنگ ہے۔
Kashmir
جنوبی کشمیر میں الیکشن قریب آنے کے ساتھ ہی پولیس و فورسز کی تعیناتی میں اضافہ کیا جا رہا ہے جبکہ سی آر پی ایف کی ایک سو کے قریب کمپنیوں کو بھی تعینات کیا جا رہا ہے۔ بھارتی دفاعی ذرائع کے مطابق فوج، پیراملٹری فورس اور سیمابل کے اہلکاروں کو بھی تیاری کی حالت میں رکھا گیا ہے۔ جنوبی کشمیر کے پارلیمانی حلقے کے الیکشن جوں جوں قریب آ رہے ہیں پولیس و فورسز کی تعیناتی میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔ پولیس و فورسز کی جانب سے جگہ جگہ ناکے لگائے گئے ہیں۔ لوگوں کے شناختی کارڈ بھی سختی سے چیک کئے جا رہے ہیں۔ بھارت کے دفاعی ذرائع کے مطابق ڈوڈہ سے ایک سو کے قریب سی آر پی ایف کی کمپنیوں کواسلام آباد کے پارلیمانی حلقے کے الیکشن کے دوران تعینات کیا جا رہا ہے۔
اتنی زور زبردستی کے باوجود بھارت اس بات پر مصر ہے کہ وہ باقی ماندہ ملک کی طرح یہاں بھی انتخابات کروا کر چھوڑے گا، چاہے کشمیری مانتے ہیں یا نہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے اطراف و اکناف میں اس وقت جہاں بھارت کے خلاف عوامی سطح پر زبردست مظاہرے اور ہڑتالیں جاری ہیں، یہ مناظر ساری دنیا سے اوجھل ہیں۔ البتہ سب سے بڑے عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ان چند گنتی کے کشمیریوں کو ڈھونڈ کر دنیا میں خوب ڈھنڈورا پیٹا ہے، جن کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ یہ نوجوان اب بھارتی آئین کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کے لئے حال ہی میں میدان میں اترے ہیں اور کشمیری عوام کی رائے بدل رہی ہے۔حریت قیادت نے21اپریل کووادی بھر میں بھارت کی جانب سے گرفتاریوں اور مظالم کے خلاف ہڑتال کی کال دی تھی جو ہر لحا ظ سے کامیاب رہی ۔بی بی سی سمیت ساری دنیا کا میڈیا یہ کبھی دکھانے کو تیار نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی حریت قیادت کو آخر کیوں ہمیشہ کیلئے قید و بند کی نذر کر دیا گیا ہے۔ وہ کون سا دن ہے جب مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف مظاہرے نہ ہوئے ہوں اور وہ کون سا دن ہے جب بھارتی افواج نے کشمیریوں پر مظالم نہ ڈھائے ہوں اور وہ کون سا دن ہے جب حریت رہنمائوں کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا نہ پڑا ہو۔ مقبوضہ کشمیر کے تمام چھوٹے بڑے حریت قائدین کا ایک دن آزاد ہوتا ہے تو دوسرا قید میں، لیکن اس پر سب طرف سے خاموشی ہے۔ حریت رہنمائوں اور عام کشمیریوں کی بڑی تعداد جیل میں ہے لیکن اس پر سب کی زبانیں گنگ ہیں۔ بھارت نے چند ہفتے پہلے سید علی گیلانی کو تقریباً چار سال کی نظربندی کے بعد چند روز کیلئے رہا کیا تھا۔ دنیا نے دیکھا کہ ان کے چند روز کے جلسوں نے مقبوضہ وادی میں آزادی کی تحریک میں یک دم ایک نئی روح پھونک دی تھی جس کے بعد انہیں سری نگر میں جلسے سے پہلے ہی دوبارہ قید میں ڈال دیا گیا تھا، لیکن اس طرف کسی کی نگاہ نہیں۔ بھارت کے پاس اختیار ہے کہ وہ جو چاہے کہے، دنیا اس کو لازماً تسلیم کرے گی، لیکن کشمیر کے سب سے بڑے دعویدار بلکہ اصل حقدار پاکستان کو تو کم از کم کبھی اس رو میں نہیں بہنا چاہئے جو بھارت کی جانب سے بہائی جا رہی ہے۔پاکستان کے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ جس طرح کشمیری عوام بھارت کے خلاف ان نام نہاد انتخابات کے خلاف ڈٹ گئے ہیں اور ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر جانوں کی پروا کئے بغیر میدان سجائے بیٹھے ہیں۔
ہماری حکومت اس عظیم موقع کو رائیگاں نہ جانے دے، پاکستان کی موجودہ حکومت نے جس انداز سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا ہے وہ انتہائی خوش آئند ہے، اس کے اثرات عالمی سطح پر بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنی تحریک کو تیز کریں۔ انتخابات کے موقع کو بھارت کے حوالے سے خاموشی کے ساتھ وقت گزارنے کی پالیسی کو فوری ترک کیا جائے اور کشمیری عوام کی آواز کو دنیا بھر میں پہنچا کر انہیں آزادی کی منزل اور الحاق پاکستان کی طرف لانے کی سعی کر کے ملک کو محفوظ و مامون بنایا جائے۔ یہ وقت سوچنے کا نہیں بلکہ کشمیر کیلئے کچھ کر گزرنے کا ہے جو موجودہ حکمرانوں کو ہی کرنا ہو گا۔