کیا یہ اچھا ہے صرف 95 روپے

Democracy

Democracy

آج یہ خوددیکھ لوکہ جس جمہوریت کو بچانے کے لئے نئے پرانے حکمران سرجوڑ کر بیٹھ رہے ہیں اِس جمہوری حکومت کے قوم تک کتنے ثمرات پہنچے ہیں ..؟یا اگلے وقتوں میں پہنچ پائیں گے..؟ تو بھائی…!اَب میری یہ بات مان لو کہ ایسی جمہوریت سے وہ آمریت بھلی جو غریبوں کے حقوق تو پورے دیتی ہے، ڈالرز کنٹرول میں رہتاہے، آٹاہر غریب کو میسرہوتاہے، غریب کی جھونپڑی سے لے کر امیرکے بنگلے تک بجلی بلاکسی تعطل کے پہنچ رہی ہوتی ہے،مُلک میں ہر طرف تھوڑی بہت تو خوشحالی نظرآتی ہے، مگر جمہوری حکومت میں یہ بھی چھین لی جاتی ہے، یقین نہ آئے توآمر دورِ مشرف دیکھ لوکیا کیاتھاجومیسرنہ رہا ہواورپھر پانچ سالہ جمہوری دورِ زرداری کے بعد موجودہ حکومت کے گیارہ ماہ کا خودموازنہ کرکے دیکھ لو …کہ آج مُلک کی بیس کروڑ عوام کو کیا ملاہے…؟ اور آئندہ کیا ملے گا..؟،اَب عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن )کی اِس رپورٹ کو ہی دیکھ لیں جس میں بتایا گیا ہے کہ ” ہر پاکستانی کے لئے سالانہ صرف 95 روپے صحت کا بجٹ رکھا جاتا ہے(یہ بھی ہرپاکستانی کو نہیں پہنچ پاتے ہیں یعنی کہ پہلے ہی ہڑپ کرلئے جاتے ہیں)، جبکہ حکمرانوں اور بیوروکریسی کی غفلت نے غریبوں کے لئے مختص سستے اور آسانی سے رسائی والے سرکاری علاج گاہوں کا نظام تباہ و برباد کر دیا ہے۔

یہ وہ رپورٹ ہے جس نے حکمرانوں اور بیوروکریسی کے چہروں چڑھا(مُلک سے غربت کے خاتمے اور غریبوں کے مسائل حل کرنے والا) نقاب کھینچ وکُھرچ کر پھینک دیاہے اورآج بتادیاہے کہ پاکستان کا حکمران اور بیوروکریس طبقہ مُلک کی بیس کروڑ عوام کو کس طرح بے وقوف بناکر اپنااُلوسیدھاکررہاہے۔جبکہ حالیہ انتخاب کے بعد برسرِ اقتدار آنے والی حکومت سے عوام کو بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں کہ یہ اقتدار کی کرسی پر اپنے قدم رنجا فرماتے ہی20کروڑ عوام کی حالتِ زندگی تُرنت بدل ڈالے گی یعنی جو خطِ غربت سے نیچے ہیں وہ اُوپر ہوجائیں گے اور جو اُوپر ہیں وہ اور ترقی پالیں گے اور جو پہلے سے ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزاررہے ہیں اِن کی حالتِ زندگی بہت بہترہوجائے گی مگر ہائے رے افسوس …!کہ اِس حکومت کو اقتدارمیں آئے آج دس گیارہ ما ہ توگزرگئے ہیں مگر ہماری موجودہ حکومت عوام الناس کے لئے ایساکچھ نہیں کرسکی ہے۔

Dollar

Dollar

جس سے قوم میں یہ احساس آمڈ آئے کہ یہ حکومت ہمارے معیار پر پورا اُتری ہے، اور غریبوں کے لئے کچھ بہترسوچ رہی ہے حالانکہ اَب تو روپے کی قدر بھی بہتر ہوگئی ہے اور ڈالر کی قیمت کم ہوگی ہے مگر پھر بھی اِس کے ثمرات غریبوں تک نہیں پہنچ رہے ہیں آج قوم کو یہ دیکھ کر افسوس ہورہاہے کہ موجودہ حکومت کوقوم کی حالتِ زندگی بہتربنانے کے بجائے معیشت کی بہتری کی زیادہ فکرہے لگتاہے کہ جیسے اِس کے نزدیک قوم کی بہتری سے زیادہ معیشت کی بہتری زیادہ مقدم ہے، حالانکہ موجودہ حکومت پہلے غربت اور مہنگائی کی چکی میں پسی قوم کی حالتِ زندگی بہتربنانے کو ترجیح دیتی تواچھاہوتا…اور پھر مُلکی معیشت کے استحکام کا سلسلہ بھی شروع کردیتی …تودنوں کام برابر چل رہے ہوتے …مگراِس نے ایسانہیں کیا اور وہی کیا جو اِس کے من میں آیا..اَب موجودہ حالات میں یوں لگتاہے کہ جیسے ہماری حکومت نے قوم کے درپیش مسائل کو مُلکی معیشت کی بہتری اور استحکام سے نتھی کرکے رکھ دیا ہے۔

یہ چاہتی ہے کہ پہلے مُلکی معیشت بہترہواور اِس میں استحکام آئے تو پھر قوم کی بہتری کے لئے بھی کچھ سوچاجائے …اِس کام میں بھلے سے پانچ سال لگ جائیں مگر قوم کو کسی معاملے میںریلیف دینے سے پہلے مُلکی معیشت کو بہتربنایاجائے،قوم کا تو بعد میں سوچ لیں گے ،یو بزنس مائنڈ حکمران اپنے چکر میں ہیں اوراَب مجھے اپنے حکمرانوں کی ایسی سوچ پر شاعر کا یہ شعر یاد آگیاہے کہ:۔
لبوں پہ ہے فقط ذکر ِ معیشت کوئی تدبیر کی صُورت نہیں ہے
زباں پہ ہیں بڑے غربت کے چرچے خیالِ کشتئہ ِ غربت نہیں ہے
آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکمرانوں اور بیوروکریسی نے مُلک میںغربت کے خاتمے کا جو پرچارشروع کررکھاہے وہ سب محض دِکھاوااور جمہوری سیراب ہے اورعالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت نے 2013-14کے بجٹ میں صحت کے لئے 35 ارب 60 کروڑ روپے مختص کئے جس سے صحت کی 17اسکیمیں جاری رکھناتھا،پنجاب حکومت نے 82 ارب،کے پی کے نے 22 ارب، سندھ میں ملیریا، ڈنگی ، ہپاٹائٹس اور دیگر امراض کے سدباب اور شعبہ صحت کے دیگراخراجات کے لئے 17ارب 33 کروڑ روپے رکھے گئے یوں عالمی ادارہ صحت ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں آج بھی جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد ہی شعبہ صحت پر استعمال ہورہا ہے۔

جو کہ کسی بھی حکومتی ذمہ داریوں کے لحاظ سے اِنسانی حقوق کے قوانین کے مطابق درست نہیں ہے،بیس کروڑ عوام کے لئے اتنی رقم مختص کئے جانے کے باوجود بھی مُلک کے کسی بھی صوبے کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں کسی بھی غریب تک اِس کے ثمرات پوری طرح سے نہیں پہنچ پارے ہیں جو کہ پوری اِنسانیت اور اقوام ِعالم کے لئے لمحہ فکریہ اور ہمارے حکمرانوں اور بیورکریسی کے لئے سوچنے اور اپنی اپنی غیرت کو جھنجھوڑ کر یقیناڈوب مرنے کا مقام ہے اِس پر مجھ جیسے کروڑوں وہ غریب جو اپنی نئی حکومت سے اچھی اُمیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں اِن کی اِس اُمیدپر شاعر کا کہناہے کہ: ۔ غریب ِ شہر کو روزی اگرنہیں ملتی وزارتوں کے بدلنے سے فائدہ کیاہے
اگرسماج میں تبدیلی نہیں آتیں حکومتوں کے بدلنے سے فائدہ کیاہے
اور اِسی طرح یہ بھی عرض کرتاچلوں کہ:۔ چاکِ غربت ہمیں بھی سینے دو جامِ عشرت ہمیں بھی پینے دو (ختم شُد)
زندہ رہنے کاحق ہمیں بھی دو تُم جیو اور ہمیں بھی جینے دو

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com