اسلامی شدت پسندی مغرب کے ایجنڈے میں سرفہرست رہے: ٹونی بلیئر

 Tony Blair

Tony Blair

لندن (جیوڈیسک) برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے کہا ہے کہ اسلامی شدت پسندی مغرب کے ایجنڈے میں سرفہرست رہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ٹونی بلیئر جلد لندن میں ایک اہم خطاب کر یں گے جس میں وہ مغربی ممالک کو مشرق وسطیٰ پر ایک مجموعی اور مربوط پالیسی رکھنے کی تلقین کرنے اور یہ کہنے والے ہیں کہ مغرب کو وہاں جانبداری سے کام لینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہیں گے کہ مغربی ممالک کو چاہیے کہ وہ اسلامی شدت پسندی کے خلاف جنگ کو اپنے سیاسی ایجنڈے میں سرفہرست رکھیں۔

ایک برطانوی اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم کے خطاب میں مغرب کو درپیش اہم نکتے پر توجہ مرکوز کی جائے گی کہ ان کے سامنے طرفین کے درمیان جنگ جاری ہے۔ اس لئے جب ہم مشرق وسطیٰ یا اس کے آگے پاکستان یا ایران یا پھر کہیں اور دیکھیں تو ایسا نہیں ہے کہ گڑابڑ کا لامتناہی سلسلہ ہے اور کوئی بھی ہماری حمایت کے لائق نہیں۔ وہ مزید یہ کہنے والے ہیں کہ درحقیقت یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں ہمارے سٹریٹیجک مفادات بہت ہی گہرے ہیں۔ وہاں ایسے لوگ ہیں جنھیں ہمیں تعاون دینا چاہیے اور یہ عجیب بات ہے کہ وہ شاید اکثریت میں ہیں۔ اگر ہم انھیں یکجا اور منظم کرکے ان کا تعاون کر سکیں۔ مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا کے بارے میں اپنے کلیدی خطبے میں وہ یہ کہیں گے کہ اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ ہم پہلے اپنے رویے سے خود کو آزاد کریں۔ ہمیں کسی ایک کی طرفداری کرنی ہوگی۔ ہمیں کسی ملک سے کسی خاص وقت میں اپنی سہولتوں کی بنیاد پر تعلقات رکھنے سے روکنا ہو گا۔

ہمیں پورے خطے کے بارے میں مربوط نظریہ رکھنا ہوگا اور اسے مجموعی طور پر لینا ہوگا اور سب سے پہلے ہمیں اس کا عہد کرنا ہوگا کہ ہم اس میں شامل ہوں گے۔ وہ اپنے خطاب میں اس بات سے متفق ہیں کہ مشرق وسطیٰ یا مسلم ممالک کے ساتھ رابط کی اپنی قیمت ہے اور جہاں کمٹمنٹ نہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ ان کے معاون نے کہا کہ ان کلیدی خطبے کا مقصد اس پورے خطے میں کسی انقلاب کی دعوت نہیں بلکہ اس کا مقصد اس بات کو تسلیم کرانا ہے کہ خطے میں جاری کشمکش سے مغرب خود کو علیحدہ نہیں رکھ سکتا۔ اس ضمن میں انھوں نے شام میں جاری جنگ کا حوالہ دیا۔ اس کے ساتھ ہی بلیئر یہ بھی کہنے والے ہیں کہ بنیاد پرست اسلام کا خطرہ کم نہیں ہوا ہے بلکہ یہ بڑھ رہا ہے۔