لاہور (جیوڈیسک) پی سی بی کے چیئرمین نجم سیٹھی نے اعتراف کیا ہے کہ انگلش کرکٹ بورڈ کو راشد لطیف کی بطور چیف سلیکٹر تقرری پر تحفطات تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ دانش کنیریا کی مسلسل حمایت کے سبب ای سی بی کی ممکنہ نارضی کے باوجود سابق کپتان کو نامزد کیا،راشد کو کرپٹ کرکٹرز کیخلاف کارروائی کے بھرپور مواقع مل سکتے تھے، جس پر شک ہوتا اس کو بلیک لسٹ کر دیتے لیکن وہ اپنے اختیارات اور دائرہ کار کی وسعت کا درست اندازہ ہی نہ لگاسکے، ان کی طرف سے عہدہ ٹھکرائے جانے کا افسوس ہے۔
تفصیلات کے مطابق راشد لطیف نے چیف سلیکٹر بننے کی پیش کش قبول کرنے کے بعد چارج سنبھالنے سے قبل ہی عہدہ ٹھکرا دیا تھا، پہلے اطلاعات سامنے آئیں کہ انہیں سلیکشن کمیٹی کے انتخاب میں مداخلت پر اعتراضات تھے، بعد ازاں ایک انٹرویو میں سابق وکٹ کیپر نے کہا کہ پی سی بی میچ فکسنگ کی تحقیقات کرنے والے جسٹس قیوم کمیشن کی سفارشات کو نظر انداز کرتے ہوئے جن سابق کرکٹرز کی تقرریوں کے لیے پر تول رہا ہے ان کے ساتھ کام نہیں کرسکتا۔
بعد ازاں یہ خبر سامنے آئی کہ پی سی بی نے راشد لطیف کو چیف سلیکٹر کا عہدہ سنبھالنے کیلیے قائل کرنے کی ضرورت اس لیے بھی محسوس نہیں کی کہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے زبردست دبائو کا سامنا تھا، گزشتہ روز سابق وکٹ کیپر نے بھی تصدیق کر دی کہ ای سی بی کی ناراضی والی بات سو فیصد درست ہے، قذافی اسٹیڈیم میں 26 فروری کو ملاقات میں چیئرمین نجم سیٹھی نے ان سے کہا تھا کہ آپ دانش کنیریا کی بہت زیادہ حمایت کرتے ہیں جس پر ای سی بی کو تحفظات ہیں اور اگر اپ کو اینٹی کرپشن یونٹ کا سربراہ بنادیا جاتا ہے تو پاکستان کو انگلش بورڈ کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کہ ایسی صورت میں انگلینڈ کی ٹیم مستقبل میں پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دے۔
ایک انٹرویو میں نجم سیٹھی نے اعتراف کیا ہے کہ انگلش کرکٹ بورڈ راشد لطیف کی بطور چیف سلیکٹر تقرری سے خوش نہیں تھا۔ان کا کہنا ہے کہ دانش کنیریا کی مسلسل حمایت کرنے کی وجہ سے ای سی بی کو سابق وکٹ کیپر کو عہدہ دیے جانے پر تحفظات تھے، اس کے باوجود ان کو نامزد کیا،اگر راشد لطیف عہدہ قبول کر لیتے تو ان کو پاکستان کرکٹ میں کرپٹ عناصر کے خلاف کام کرنے کے بھرپور مواقع ملتے، بطور چیف سلیکٹر مشکوک کھلاڑیوں کو نکال باہر پھینکنے اور بلیک لسٹ کرنے کا اختیار ان کے پاس ہوتا لیکن انھوں نے پہلے رضامندی ظاہر کی پھر ذہن بدل لیا،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ بطور چیف سلیکٹر کرپٹ پلیئرز کی بیخ کنی کے لیے حاصل ہونے والے اپنے اختیارات اور دائرہ کار کی وسعت کا درست اندازہ ہی نہیں لگاسکے، ان کی طرف سے عہدہ ٹھکرائے جانے کا ا فسوس ہے۔
دریں اثنا ایک انٹرویو میں راشد لطیف نے ایک بار پھر کہا ہے کہ پی سی بی مشکوک کرکٹرز کی تقرری پر آمادہ دکھائی دیتا ہے، انھوں نے کہا کہ کرپشن کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی پر عمل نہیں کیاجارہا، جسٹس قیوم رپورٹ کو نظر انداز کرنا اور پیسر محمد عامر کے لیے نرم گوشہ رکھنا اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں، انھوں نے کہا کہ کہ صرف دانش کنیریا کے معاملے میں عدم برداشت کی پالیسی پر عمل کرنا حیران کن ہے۔
راشد لطیف نے کہا کہ پی سی بی کے ساتھ بھارتی کرکٹ بورڈ نے بھی اپنے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سری نواسن کو آئی سی سی اجلاس میں شرکت کے لیے بھیج دیاجوکہ اینٹی کرپشن کوڈ کی بھی خلاف ورزی ہے،اس غلط کام کے الزام میں آئی سی سی بھی حصہ دار ہے۔