سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش، برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون، سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن، سابق پاکستانی صدور جنرل (ر) پرویز مشرف اور آصف علی زرداری،عام آدمی پارٹی کے بھارتی رہنماء اروندکیجری وال، سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کے بعد موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی جوتا باری کلب کے ممبر بن گئے ہیں۔ لاہور میں تین روزہ سارک بین الاقوامی کانفرنس میں مقامی صحافی نے شہباز شریف پر جوتا اچھال دیا لیکن خوش قسمتی سے جوتا اسٹیج پر جا گرا۔
پولیس نے فوری طور پر صحافی کو حراست میں لے لیا تاہم بعد میں وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم پر اُسے رہاکر دیا گیا۔ ہمارے معاشرے میں جوتے کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہ صرف پائوں میں پہننے کی ہی چیز نہیں بلکہ اس سے دیگر بہت سے کام بھی لیے جاتے ہیں۔ جوتا چھپائی اور جوتا چرائی ہمارے رسم و رواج کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔ بظاہر دونوں ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ دونوں اصلاحات الگ الگ مواقع پر استعمال ہوتی ہیں۔ ”جوتا چھپائی” شادی کی رسومات کا ایک اہم حصہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ بڑی دلچسپ اور مقبولِ عام رسم ہے۔
دولہا جب دلہن کو لینے بارات کے ہمراہ سسرال جاتا ہے تو وہاں یہ رسم ادا کی جاتی ہے۔ دولہے کی سالیاں اُس کے جوتے چھپا کر تنگ کرتی ہیں اور اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے بعد ہی جوتے واپس کرتی ہیں جبکہ یہی رسم مسجدوں میں نماز کے اوقات میں ”جوتا چرائی” کے نام سے ادا کی جاتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جو پیسے لے کر جوتے واپس کرے وہ ”سالی” ہوتی ہے اور جو خدا کا دیا سمجھ کر لے جائے وہ ”سالہ” کہلاتا ہے۔ جوتا چھپائی کرنے والی سالیوں کی پہچان تو آسانی سے ہو جاتی ہے مگر نماز کے اوقات میں مسجدوں کے اندر سے جوتے چوری کون سالے کرتے ہیں اس پر ابھی تک تحقیق جاری ہے۔ ہر دور میں جوتے کا ایک سماجی، معاشرتی اور اخلاقی کردار رہا ہے مگر سیاسی مقاصد کیلئے اس نے باقاعدہ طور پر اپنے سفر کا آغاز عراق سے کیا۔
پچھلے چند سالوں میں جوتے نے ایسا انقلاب برپا کر دیا ہے کہ اب اس کا سیاسی استعمال زیادہ ہونے لگا ہے بلکہ اس نے بہت سے سابق اور موجودہ حکمرانوں کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کر دیا ہے۔ ویسے ہم شادی بیاہ کی تقریبات میں جوتا چھپائی کی رسم تو دیکھتے ہی رہتے ہیں تاہم کسی ملک کے صدر کی رخصتی پر ”جوتوں کی سلامی” شاید پہلی مرتبہ دیکھا گیا۔ عراق کے صحافی منتظر الزیدی نے جارج ڈبلیو بش کو جوتوں کی سلامی دے کر ایک نئی روایت قائم کی۔ اس کے بعد سے پوری دنیا میں لیڈران پر جوتے برسانے کا چلن عام ہو گیا ہے اور کئی ممالک کے سربراہان اس جوتا باری کا نشانہ بھی بن چکے ہیں۔ آج کل دنیا میں جوتا مارنے کی جو لہر چل نکلی ہے یہ جانے کہاں جا کر دم لے گی۔ اب تو بہت سے ملکوں کی عوام نے اسے قومی کھیل کا درجہ تک دے دیا ہے جیسے اس سے اچھا کوئی اور کھیل دنیا میں ہے ہی نہیں۔
United Nations
یہاں تک کہ دنیا کے کئی رہنمائوں کو جوتے پڑنے کے بعد اُن پر آن لائن گیمز بھی دستیاب ہیں۔ شہرت کے خواہشمند افراد اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کس پر جوتا پھینکا جائے جبکہ ڈرپوک آن لائن گیمز میں جوتے مار کر اپنا غصہ نکال دیتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر جس طرح جوتا کش حملے جاری ہیں عین ممکن ہے کہ کہیں متاثرہ ممالک کی حکومتیں اقوام متحدہ سے معاملے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ نہ کر دیں اور پھر اقوام متحدہ کی طرف سے تحقیقات اور قانون سازی کے بعد یہ ہدایت نامہ بھی جاری ہو سکتا ہے کہ تمام رکن ممالک اپنے ہاں ایک ایسا ادارہ تشکیل دیں جو لوگوں کو قانونی طور پر جوتے فراہم کرے۔
اس کے بعد تمام جوتاساز کمپنیاں بھی اس بات کی پابند ہو سکتی ہیں کہ وہ صرف لائسنس یافتہ افراد کو جوتے بیچیں جبکہ سرکاری تقریبات میں شرکت کیلئے آنے والے افراد صرف ایسے جوتے پہن سکیں گے کہ جن میں ”حساس آلات” نصب ہوں۔
جیسے ہی کوئی جوتا اُتارنے کی کوشش کرے گا تو اس میں نصب خفیہ آلہ اس تبدیلی کو نوٹ کرکے جوتے میں ہی لگا خفیہ الارم بجانا شروع کر دے گا۔ اس طرح سکیورٹی ہائی الرٹ ہو جائے گی اور یوں جوتاکش حملوں کی بڑی حد تک روک تھام ممکن ہو سکے گی جبکہ ٹارگٹ بننے والا بھی جگ ہنسائی سے بچ جائے گا۔
دراصل جوتا اظہارِ اختلاف کیلئے نہیں بلکہ اظہارِ نفرت کیلئے مارا جاتا ہے۔ گو کہ یہ ایک غلط حرکت ہے تاہم شہباز صاحب کو سوچنا ضرور چاہیے کہ ایسی کونسی بات ہے جو اُن کے خلاف نفرت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو رہی ہے۔