معروف صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ انتہائی افسوس ناک ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، اس کے ذمہ داران کو فورا کٹہرے میں لا کر کارروائی کی جانی چاہئیے۔ ملک عزیز میں ایسے واقعات گذشتہ 14 سال سے امریکی جارحیت کے بعد بہت بڑھ گئے ہیں عدم برداشت کا کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے اس کی بنیاد تو امریکہ نے ڈالی کہ ایک ٹریڈ سنٹر کی تباہی کا بہانہ بنا کر بدلے کے لئے بغیر کسی مقدمہ چلائے اندھا دھند اور مسلمانوں سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان پر حملہ کر کے 7 لاکھ سے زائد افغان معصوم مسلمان بوڑھوں، بچوں، عورتوں کو شہید کر کے ڈالی۔
اس کے بعد پاکستان میں ہر گروہ،فرد اورطبقے اور ادارے کا ایک دوسرے پر بندوق اٹھانے کا بہانے مل گیا۔کچھ پتہ نہیں چلتا کہ مارنے والا کون ہے ، اس کو خود نہیں علم کہ کیوں مار رہا ہے اور مرنے والے کو بھی بھی نہیں پتہ کہ اسے کیوں مارا جا رہا ہے۔
حامد میر پر حملے جیسے واقعات کی ایک طرف جہاں روک تھام کی اشد ضرورت ہے ،وہاں اسلام کی حدود کے مطابق صحافیوں کا ضابطہ اخلا ق مرتب کرنے کی بھی ضرورت ہے ، اس وقت صحافیوں اور اینکروں کی کچھ تعداد امریکہ ، اسرائیل اور بھارتی لابی سے فنڈ لے کر ان کے مفادات کے لئے اسلام اور ملک،دفاعی اداروں، اسلامی جماعتوں، دینی اقدار ومدارس کے خلاف دن رات زہر اگلنے میں مصرف ہے تو بیرونی دشمن نے دوسری طرف کھربوں روپے فحاشی پھیلانے کے لئے میڈیا کی انڈسٹری میں جھونک دئیے ہیں ۔ طالبان کے نام پراسلام کے ہر طبقے کو مطعون کیا جا رہا ہے ، ملالہ کے نام پرکروڑوں کے فنڈ لئے گئے، لال مسجد جیسے واقعات کا بہانہ بنا کر اسلام ،اسلامی طبقے اور اسلامی قوانین کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی گئیں۔
Pervez Musharraf
مشرف کے دیگر اسلام و ملک دشمن اقدامات کی طرح بدقسمتی سے جب 2001ء میں اس رنگیلے حکمران نے کیبل نیٹ ورک کو بزور بندوق قانونی قرار دیا اس وقت سے کچھ چینلز کو اپنی اجارہ داری اور بدمعاشی قائم کرنے کا موقع مل گیا۔ اس کی آڑ میں شریف لوگوں کی عزتیں اچھالی گئیں، اسلام کی حدوں کا جب چاہا جس نے چاہا کھلم کھلا مذاق اڑایا، بھارتی ، ترکی، مغربی انتہائی فحش ناچ گانے والے مخلوط پروگرام چلائے گئے، صلیبی، صیہونی اور ہندو اشارے پر دینی طبقے کی تذلیل اور کردار کشی کی بھرپور مہم چلائی گئی، اسلامی شعائر کی کھلم کھلا توہین کی گئی۔ دین کے نام پر جہالت اور ہندو ازم اور شرک و بدعت کا پھیلائو کیا گیا۔ وفاق کی علامت ،دفاعی اداروں کے خلاف عوام کو بدظن کرنے کے لئے دشمن ملک بھارت سے کروڑوں کے فنڈز لئے گئے ۔ دشمن ملکوں کے سفارتخانوں سے ایسے بکائو لفافہ انڈین و امریکی ایجنٹ زردصحافیوں کو ناچ گانے کی مخلوط محفلیں، شراب ، ڈالر اور امریکی دورے ویزے آفر کئے، پلاٹوں کی سیاست کی گئی، ایسے سارے صحافی اور میڈیا پرسن ڈالر کے دھن پر ناچتے ہوئے اسلام اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافی برادری لائحہ عمل اور ضابطہ اخلاق طے کرے اور اپنی صفوںمیں موجود ایسی کالی بھیڑوں کا احتساب کرے اور میڈیا کے ماحول کے بارے اس تاثر کو دور کرے کہ میڈیا و اخبارات پر فرقے ، سیکولر لوگوںاور ہمسایہ ملک کی اجارہ داری ہے اور داڑھی والے ، نیک نمازی ،شراب زنا ناچ گانے سے بچنے والے صحافیوں کے لئے ان اداروں میں داخل ہونا اور کام کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے اس کے لئے سب کو مل بیٹھ کر اصلاح کے لئے فوری طور پر قومی سطح پر کوشش کرنے چاہئے۔اس کے علاوہ آپس کے اختلاف اور ایجنسیوں اور دفاعی اداروں کے خلاف محاذ کھڑا کرنے کی بجائے امریکہ ،انڈیااور اسرائیل جیسے بیرونی دشمنوں ،آبی جارحیت اور ان کی ایجنسیوں کی سازشوں کا توڑ کرنے کی ضرورت ہے،اندرونی اتحاداورعناصر سے مذاکرات اور بیرونی دشمن کے خلاف ہتھیار اور ایٹم بم کی زبان سے بات کرنا ہی ہمار ے مسائل کا حل ہے۔اس کے علاوہ کشمیر اور افغانستان کے جہاد اور جہادی تنظیموں کی مکمل سپورٹ کرنے سے ہم 2001ء سے پہلے کی قومی پوزیشن پر چلے جائیں گے جہاں ملک میں آج کی نسبت بہت امن و امان تھا اور بھارت کو چند گنتی کے مجاہدین نے ناکوں چنے چبوائے ہوئے تھے،یہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ اور منہج تھا انہوں نے مدینہ کی ریاست کو محفوظ رکھا مدینے کے منافقوں اور یہودیوں کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی۔ پہلے بیرونی دشمن مکہ کے مشرکین کے خلاف جہاد کیا اور جب مسلمانوں کو فتح ہوئی تو اندرونی سازشیں بھی دم توڑ گئیں۔
ایسے ٹوڈیوں اور ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگوں کی جب بیرونی امداد بند ہوتی ہے تویہ بھی کسی سازش کرنے کے قابل نہیں رہتے اس لئے فوری طور پر اندرونی جنگ بندی کر کے مذاکرات کی کامیابی کے لئے سنجیدہ کوشش کرنی چاہئیے اوراپنی صفوںمیں موجود بیرونی دشمن کے ایجنٹوں کی نشاندہی بھی کر کے اپنا احتساب بھی جاری رکھنا چاہئیے۔