آج ہمارے مُلک میں جمہوراورجمہوریت کے خوبصورت لبادھے میں لپٹے نظامِ نے افراداور اداروں میں اختلاف رائے کا جورجحان پیداکیاہے دراصل اِسی ایک نقطے نے ہی افراداور اداروں کو آئین اور قانون کی متعین کردہ حدوں سے بھی دورکردیاہے، اورآج یہی وجہ ہے کہ ہر طرف سے اختلافِ رائے کی آوازیں تو بہت بلندہورہی ہیں مگر کسی ایک بھی نقطے پر کوئی بھی متحدو منظم ہونے کوتیارنظرنہیں آتاہے، ایسی صورتِ حال میں ہمارے ہی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اِسے افراداور اداروں کے درمیان تناؤکی سی کیفیات سے تعبیرکررہے ہیں تو کچھ اِسے ارتقائی مراحل طے کرکے بہتری کی جانب جاتے رجحان سے تعبیر کر کے تغیراتی انداز سے آگے بڑھنازیادہ مقصودسمجھ رہے ہیں۔
کچھ ایسے بھی ہی جو افراداور ادارو ں کے تناؤمیں مزیداضافہ کرنااور ہر قسم کے جاری تناؤپر تیل چھڑکنے کو اپنی سیاسی خدمات کہہ رہے ہیں اَب ایسے میں یہ فیصلہ کرناآپ پر ہے کہ آپ خود یہ فیصلہ کریں کے بہت سے سیاست دان ، اپوزیشن لیڈرزاور اخبارات اور چینلز کے مالکان سمیت دیگر لوگ افراداور اداروں کے درمیان تناؤکی سی کیفیت میں کیا چاہتے ہیں …؟ کیا ایک ایسے ماحول اور لمحات میں کہ جب افراداور ادارے اپنے اپنے انداز سے قانون اور آئینی دائروں سے نکل کر کچھ سے کچھ سوچ رہے ہوں،اور اپنے ذاتی یا انفرادی فائدے یا صرف اپنے ہی ادارے کی روش سے متعلق ہی کچھ کرناچاہ رہے ہوں تو کیا۔
کچھ لوگوں کو ایساکرناچاہئے ..؟یا مُلک کو حفاظت پر معموراداروں پر کھلم کھلا انفرادی یا اجتماعی لحاظ تنقیدکرنی چاہئے..؟یا کس ایک شخص کی غلطی کا باربارذکرکرکے اپنے احساس اور قومی ادارں کا مذاق اڑاناچاہئے …؟ایسے میں کوئی بھی محب وطن پاکستانی یہ کبھی نہیں چاہئے گاکہ کوئی وطن کے قومی اداروں کا کسی بھی حوالے سے مذاق اڑائے یا کسی کوکسی بھی لحاظ سے افراد یا اداروں کی جانب سے اپنے احساس اور قومی اداروں کا مذاق اڑانے دے..سوایسے میں ہر صُورت میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ کسی بھی وجہ سے ناراض افراداور اداروں کو چاہئے کہ وہ اپنی روش بدلیں اور اپنے احساس اور قومی اداروں کا خودپہ لازم کرلیں۔
اَب جیسے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی پارٹی کے18ویں یومِ تاسیس کے موقع پر منعقدہ جلسے سے خطاب اوربی بی سی کودیئے گئے اپنے ایک انٹرویومیں کئی نئے انکشافات و گھمبیر پوائنٹس کا تذکرہ اپنے دماغ پر زوردیتے ہوئے انتہائی مشکل اندازکاسہارالے کر توکیا اوروہ سب کچھ اتنی آسانی سے کہہ گئے کہ جیسے یہ اِن پوائنٹس اور نکات کے حل کے بارے میں اپنا کوئی پروگرام لے کر آرہے ہیں مگرجب ایساکچھ نہیں ہے توپھروہ یہ سب کچھ کیوں کہہ گئے کہ” فوج اور آئی ایس آئی کے ساتھ 8گھنٹے تک جو کیاگیا۔
وہ دُشمن بھی نہیں کرتا،جیونے بالکل غلط کیا، حکومت نے بھی ایک ایجنڈے کے تحت ایجنسی کو دنیا بھر میں بدنام کروایا، آزادی اظہارکے نام پر کمرشل مفادات کا تحفظ اور حامدمیرکے نام پر کوئی اپناایجنڈاپورانہیں کرسکتا ،قومی مفادمیں نوازشریف کے ساتھ ایک ہی لائن لی ہے، 11مئی سے دھاندلی کے خلاف تحریک چلے گی” اَب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی زبان سے نکلے اِن نکات کے بعد ایسالگتاہے کہ جیسے آج مُلک میں حکمرانوں، سیاستدانوں ، اداروں اور عوام سب کو اپنی اپنی پڑی ہے عمران خان اور بہت سے سب مل کر نمبراسکورنگ اور سیاسی قداُونچاکرنے کے چکرمیں پڑے ہیں کسی کو مُلک اور قوم کی بہتری کا توکچھ خیال ہی نہیںآ رہاہے، جس کو دیکھووہ اپنی اپنی ناک کی سیدہ اور کانوں کے درمیان اپنی اپنی ہانکتااور کانپتادوڑے ہی چلے جارہاہے۔
یعنی یو ں کہ جیسے اِن سب کی نظروں میں اِن کی ہی اہمیت ہے اور مُلک اور قوم کچھ بھی نہیں ہیں،آج اداروں اور افرادکے درمیان جاری لڑائی میں جلتی پر تیل چھڑکنے والے تو بہت سے مل رہے ہیں مگر افسو س ہے کہ اِن کی اِس لڑائی کو ختم کرانے کے لئے کوئی ایسانہیں ہے جو مصالحت سے کام لے اور آگے بڑھے اورسب ضدیوں اور اَناپرستوں میںصلاح صفائی کروادے ،اور مُلک اور قوم کو درپیش خطرناک چیلنجز سے نکالنے کی کوئی دواداروہی کردے، مگر موجودہ حالات میں ایسالگتاہے کہ جیسے سب کو تو اپنی ضد اور اَنا کے آگے مُلک اور قوم کی بہتری کا تو کوئی راستہ سُجھائی ہی نہیں دے رہاہے۔
Pakistan
آج جس طرح مُلک کے پانچوں ستونوںک ے درمیان اپنی اپنی ضداور اَناکی وجہ سے جو خاموش جنگ چھڑی ہوئی محسوس کی جاسکتی ہے ،اِس کا ادراک کرتے ہوئے سب کو افہام و تفہیم کی راہ اختیارکرتے ہوئے کوئی نہ کوئی بیچ کی راہ ضرورنکال لینی چاہئے کیوں کہ یقینی طور پر ا بھی کسی کا کچھ بھی نہیں بگڑاہے اَب بھی وقت ہے کہ پچھلی تمام غلطیوںاور ایک دوسرے کی کوتاہیوں کو کھلے دل اور دماغ سے معاف کرکے ایک نئے عزم وہمت کے ساتھ مُلک کو ترقی اور خوشحالی کی دائمی راہ پر لے جانے کا نعرہ بلند کیا جائے اور اپنے اپنے دردناک ماضی کی غلطیوں اور کمزوریوںکو بھلا کرسب کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے اور ایک ترقی یافتہ پاکستان کے خواب کی تعبیر کے خاطر ایک ہونے کے لئے افراداور اداروں کو ضداور اَنا کی جاری اِس جنگ کو جو جانے یا انجانے میں شروع ہے اِسے فوراََ سے بیشترختم کردی جائے ورنہ تو اِس جنگ کے نتائج ایسے ہی بھیانک ہوں گے جس طرح دیمک لکڑی کو اندرہی اندرکھا کربے کار اور تباہ کردیتی ہے یکدم اِسی طرح کچھ افراد اور اداروں کی ضداور اَنابھی ہم پاکستانیوں کے بنائے ہوئے معاشروں، تہذیبوں اور ا دارو ں سمیت اِن کے حوصلوںاور اصولوں اور ضابطوں کوبھی تباہ وبربادکرکے رکھنے کی بڑی وجہ بن سکتی ہیں۔
اگرچہ آج بھی دنیا کے جن ممالک اور معاشروں میں ضداور اَناپرستی کا کلچرل عام ہے دیکھ لو کہ اِن کا سماجی ومعاشی، اخلاقی و مذہبی رجحان سوائے پستی کے بلندی کی جانب جاتاکبھی بھی دکھائی نہیں دے گا، آج بھی ایسے ممالک اور معاشروں کی مثال موجود ہے جہاں کے لوگوں نے اپنا سب کچھ اپنی ضد اور اَنا کی پاسداری پر لٹادیاہے تب ہی اِن کے حصے میں سوائے کفِ افسوس اور خالی دامن کے کچھ نہیں آیا ہے۔
آج بدقسمتی سے ہمارے یہاں بھی ایساہی کلچرل اور رجحان ہر خاص و عا م میں پایاجاتاہے، اِس کی کیا وجہ ہے ..؟آج اِس سے میں بھی واقف ہوں تو آپ بھی خُوب جانتے ہیں کہ وہ کون سے بنیادی عوامل رہے ہیں جنہوں نے ہمارے اندر ضداور اَنا کے رجحانات کو پروان چڑھانے میں معاونت کی ہے اور آج اِس سے بھی شاید کسی کو انکارنہ ہو کہ اَب تونوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہمارے قومی اداروں سے لے کر ایک عام پاکستانی شہری تک طرح طرح کی بے مقصدکی ضداور اَنانے ہم سب کے اندرایساگھرکرلیاہے کہ ہم اِس کے بغیر اپنی زندگی گزارنااور اُمورمملکت چلانا بھی محال سمجھنے لگے ہیںآج ہمارے معاشرے کے جن صاحب عقل ودانش میں ضدواَنانہیں ہے وہ ہی معاشرے کے سب سے کمزورترین فردتصورکئے جاتے ہیں حالانکہ اگر وہ بھی ضدی بن کر اپنی نکٹی چپٹی ناک پر اَنا کا خول چڑھالیں تو کوئی اِن کا کچھ نہیں بگاڑسکتاہے کیوں کہ ہماراتو ساراکا سارامعاشرہ ہی بگڑاہواہے۔
ہر فرد اپنی بے مقصدکی ضداور نام نہادشیطانی اَنا کے گہرے سمندرمیں غرق ہوچکاہے، مگر اِس کے باوجود بھی میرے معاشرے کے کچھ اچھے افراداور اچھے ادارے ایسے بھی ہیں جنہوں نے ضداور اَنا کو اپنے قریب تک بھٹکنے نہیں دیاہے اورآج بھی یہ یکسوئی کے ساتھ اپنے اپنے حصوں کا کام کرنے میں مگن ہیں، اور آج میرے مُلک اور معاشرے کے جن افراداور اداروںمیں ضداور اَنا قدغن لگاکر گُھس گئے ہیں اُنہوں نے تو اپنے اپنے تعین جیسے سارے مُلک اور معاشرے اور اپنے سمیت دوسروں کا بھی جینا تنگ کرکے رکھ دیاہے،آج اِس کی مثال باآسانی(کُھلی تو کُھلی بلکہ بندآنکھوں سے بھی) دیکھی جاسکتی ہے کہ افراداور ادارے اپنی اپنی ضداور اَناکی پاسداری میں کبھی دھیرے دھیرے توکبھی تیزرفتاری سے کیسے لڑرہے ہیں۔
بہرکیف…!آج موجودہ حالات میں کہ جب دُشمن گھات لگائے حملے کے لئے تیار بیٹھا ہے اور ہم آپس میں ضداور اَناکی جنگ میںپڑ کر خود کو تباہ کررہے ہیںتو ایسے میں ہمیں یہ چاہئے کہ ہم ابھی سنبھل جائیں کیوں کہ ابھی ہماراکچھ نہیں بگڑاہے ..اگرہم دُشمن کی سازش کو نہ سمجھ سکے اور لڑتے رہے تو پھر یہ جان لو کہ دُشمن ہم پرلپک پڑے گااور ہمیں ترنوالہ بناکر ہڑپ کرجائے گا۔