مغربی دنیا میں وہ غالبا پہلی ادیبہ ہیں، جس نے خواتین پر زور دیا کہ وہ محض مرد ادیبوںکی نقالی کرنے کی بجائے اپنے الگ تخلیقی راستے تلاش کریں۔
ابتدائی زندگی ورجینیا وولف لندن میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد Leslie Stephen ایک ادیب تھے۔ گھر میں خوشحالی تھی اور ورجینیا اور انکے بہن بھائیوں نے کسی اسکول جانے کی بجائے گھر پر ہی تعلیم حاصل کی، جس کیلئے قابل اساتذہ باقاعدہ گھر آیا کرتے تھے۔ وہ 13 برس کی تھیں کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور وہ پہلی مرتبہ ایک بڑے نفسیاتی بحران سے دوچار ہوئیں۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد وہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنیں اور یہ واقعہ عمر بھر کے ایک روگ کی شکل اختیار کر گیا۔
ادبی زندگی کا آغاز تاہم یہ مایوسیاں ان کی زندگی کا صرف ایک رخ ہیں۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ شروع میں وہ جریدے ٹائمز کیلئے باقاعدگی کے ساتھ مضامین لکھتی رہیں، ان کا گھراس وقت کے اہم ادیبوں کے مل بیٹھنے کے ایک مرکز کی شکل اختیار کرگیا اور اِن ادبی مباحث میں اس دور کی سیاست ، ادب اور فنون پر بھرپور طریقے سے اظہارِ خیال کیا جاتا تھا۔ اِن محفلوں میں ورجینیا خود کو ایک زندہ دِل شخصیت کے طور پر پیش کرتی تھیں لیکن اندر سے وہ دکھی تھیں۔
شادی 1913 میں معروف ادبی نقاد Leonard Woolf کے ساتھ شادی کے چند ہی مہینے بعد انہوں نے خودکشی کی پہلی کوشش کی۔ تاہم ادب تخلیق کرنے کے سلسلے میں ان کی رفتار بدستور تیز رہی
ناول نگاری 1912 ہی میں ان کا پہلا ناول The Voyage Out شائع ہو چکا تھا۔ اس کے بعد کے برسوں میں ان کے کئی ناول شائع ہوئے، جن میں انسان کے شعوری تانے بانے کو بیان کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں۔
اگرچہ ان کے ناول آج بھی اہم ادبی تخلیقات میں شمار ہوتے ہیں لیکن ان کی اصل وجہِ شہرت ان کے بعدکے دور کے مضامین ہیں۔ 1929 میں ان کا مضمون شائع ہوا تھا، A Room of One\’s own۔ اِس میں انہوں نے ادب تخلیق کرنے والی خواتین کے خراب حالات کی طرف متوجہ کیا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ سال میں پانچ سو پائونڈ ادا کئے جائیں اور رہنے کیلئے ایک الگ کمرہ دیا جائے تو خواتین کو بھی ویسی ہی کامیابی مل سکتی ہے، جیسے کہ مرد ادیبوں کو۔ تاہم ادب کے میدان میں ان کی کامیابیاں ان کی خراب نفسیاتی حالت کو بہتر نہ بنا سکیں۔
حقوق نسواں اس کے علاوہ وہ خاص طور پر مغربی دنیا میں حقوقِ نسواں کی تحریک کی بانی شخصیات میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کی یہ پہچان اتنی زیادہ نمایاں ہے کہ کبھی کبھی ان کا ایک بے مثل ادیبہ ہونا پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
انتقال ان پر بار بار مایوسی کے دورے پڑتے تھے، انہیں آوازیں سنائی دیتی تھیں اور وہ کئی کئی روزتک کام نہیں کر سکتی تھیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران 1940 میں جرمن جنگی طیاروں نے ان کے لندن کے گھر کو تباہ کر دیا۔ 28 مارچ سن 1941 کو انہوں نے ایک ندی میں چھلانگ لگا دی اور ڈوب کر اپنی مایوسیوں سے ہمیشہ کیلئے نجات پا گئیں۔ مغربی دنیا میں وہ غالبا پہلی ادیبہ ہیں، جس نے خواتین پر زور دیا کہ وہ محض مرد ادیبوںکی نقالی کرنے کی بجائے اپنے الگ تخلیقی راستے تلاش کریں۔