روٹی کپڑا اور مکان” ملکی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا انقلابی نعرہ تھا جس کی گونج ہر غریب کی صدائے دل سے کچھ یوں ”رل مل” گئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ نعرہ پسے ہوئے طبقے کے ہر فرد کا ہر دل عزیز ہی نہیں واحد مطالبہ بن گیا۔ یہ بات بلا خوف و تردید کہی جا سکتی ہے کہ مقبولیت و محبوبیت میں اسکا مقابل دور دور تک کوئی نہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ آج تک اس دل فریب نعرے کی صدا سنائی دیتی ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گاکہ اس پر فریب نعرے سے اب بھی بہت سوں کو بے وقوف بنانا ممکن ہے۔
مجھے کہنے دیجئے کہ یہ پاکستان کی تمام” دائیں بائیں اور آئیں شائیں” پارٹیوں کامشترکہ( مگر غیر اعلانیہ) نعرہ ہے اور ہر پارٹی اپنے اپنے اندازمیں ا سے ایک سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر ہر الیکشن میں استعمال کر کے غریبوں کا ہر ممکن استحصال کرتی ہے ۔میری بھولی بھالی قوم اس نعرے کے سحر میں کچھ یوںجکڑی کہ کبھی اس کے مفہوم پر غور کرنے کی زحمت ہی سے محروم رہی۔کیا ہم نے کبھی یہ غور کیا کہ دنیا میں کون سا ایسا ملک ہے جو اپنے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان فراہم کرناتو رہا ایک طرف ایسا کوئی دعویٰ بھی کیاہو۔ترقی پذیر ممالک تو رہے ایک طرف کسی ایک ترقی یافتہ ملک کا نام بتائیں جس نے اپنی قوم کو ان سب چیزوں کی فراہمی کا کبھی ذمہ لیا ہو(ہاں کچھ مخصوص طبقات کے لئے امداد فراہم کرنا اور بات ہے جیسے بوڑھوں اور بے روزگاروں کو الاؤنسز دینا )۔بلکہ اکثر ممالک میں تو آمدنی کا ایک خاصا بڑا حصہ ٹیکس کی مد میں وصول کر لیا جاتا ہے۔ہاں وہاں یہ احتیاط ضرور کی جاتی ہے کہ جو جتنا کماتا ہے اسے اتنا زیادہ سرکار کے اکاؤنٹ میں ٹیکس کے طور پر جمع کرانا پڑتا ہے۔اور یہ بھی کہ ٹیکس کا روپیہ عوام کی فلاح و بہبودخرچ ہوتا نظر بھی آتا ہے۔
ہم یہ بات کیونکر بھلا سکتے ہیں کہ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔بانی پاکستان اسے ایک ایسی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے کہ جہاں اسلامی قوانین کا تجربہ کیا جائے۔ یہ تجربہ گاہ تو ضرور بنی لیکن اسلامی قوانین کی بجائے نفرتوں کی آبیاری اور شجرکاری کی گئی جس کا پھل کڑوا پھل آج سب کو چکھنا ہی نہیں کھانا بھی پڑا رہاہے ۔ہم نے جس فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا وہ عرصہ ہواکسی دیوانے کا خواب بن چکا ہے۔ جسکا مقدر شرمندہ تعبیر ہونا نہیں، شرمندہ کرنا ہوتا ہے ۔”روٹی کپڑااور مکان ”جیسے گمراہ کن نعرے کی تخلیق اور مقبولیت بتاتی ہے کہ یہاں پسے ہوئے طبقات کو ”لالوں ”نے ایسا ماحول فراہم کیا کہ انہیں جان کے لالے ،زبان پر تالے ،پاؤں میںچھالے پڑگئے لیکن زندگی کی بنیادی ضروریات ہیں کہ محفوظ فاصلے پرموجود رہیں ۔ آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ آدھی آبادی کو پینے کاصاف پانی ہی میسر نہیں۔
Inflation
چالیس فیصد آبادی غربت کی لکیر عبور نہیں کر پائی۔لاکھوں لوگ چھت سے محروم ہیں۔ توانائی کے بحران کے سبب چھوٹی صنعتوں کا پہیہ جام ہو کر رہ گیاہے اور ناجانے کتنے گھروں کے چالہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔کسان بیچارہ الگ بھوک اگاتا اور محرومی کی فصل کاٹتا دکھائی دیتا ہے۔باقی رہے تنخواہ دار افراد تو مہنگائی کے تناسب سے آمدنی میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے انکی زندگی قابلِ رحم ہے۔ رہی سہی کسر دہشت گردی نے معاشی سرگرمیوں کی کمر توڑ کر پوری کر ڈالی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میںروپے کا مضبوط ہوجانا ایک بھی غریب کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تک نہیں لا سکا(ہاں حکومتی افرادضرور پھدکتے پھر رہے ہیں)۔خوش تو تب ہوتے جب اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں کچھ نہ کچھ کمی دیکھنے میں آتی۔
ہر بار کی طرح اب کی بار بھی یوم ِ مزدورمناسیا جارہا ہے ۔امید ہے کہ یہ روایتی کی بجائے حقیقی انداز میں منایا جائے گا۔دن منانے پر زور دینے کی بجائے مزدوروں کو منانے کی کوششیں قابلِ ستائش ہونگی ۔ورنہ ٹھنڈے کمروں میںغریبوں کے مسائل پرآٹھ آٹھ آنسو بہانے سے کہیںبہتر ہوگا اپنی چونچ بند ہی رکھی جائے۔اگر غریبوں کے مسائل حل نہیں کرنے تو ان کے زخموں پرنمک پاشی بھی نہ کی جائے۔ اگلے مہینہ جون کا ہے ۔تاجر حضرات بجٹ کے پیش نظر ذخیرہ اندوزی میں مشغول ہیں جبکہ صارف کے ماتھے پر ابھی سے شکنیں گہری ہونے لگی ہیں۔پچھلی بار کا بجٹ عوام کو ابھی تک نہیں بھولا۔تب تو حکومت کے پاس وقت کی قلت کابہانہ بھی تھا۔اب تو یہ بہانہ بھی کارگر نہیں ہوگا۔اوپر سے روپے کے” مضبوط ”ہونے سے عوام کے پاس ریلیف کا مضبوط جواز بھی ہے ۔پھر”ستم بالائے ستم”یہ بھی ہے کہ ”ڈار سرکار”قوم کو پہلے ہی سے ریلیف کی نوید دے چکے ہیں۔ اس سے بھی غریبوں کی کچھ آس بندھی ہو گی۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ سماج کو اس میں بسنے والے عام افراد زندہ رکھتے ہیں۔پاکستان میں مگرقسمتی سے انہی افرادکا جینا دوبھر ہوکر رہ گیا ہے۔انہیں زندگی کی بنیادی ضروریات کے لئے لمحہ لمحہ سسکنا اورروز مرنا روز جینا پڑتا ہے ۔مانا غربت کسی ایک ملک کا مسئلہ ہرگز نہیںاور نہ ہی اس کو لمحوں میں ختم کرنا ممکن ہے ۔اقوامِ عالم میں مگر غربت کے خاتمے اور ان کے مسائل کم کرنے کی بڑی سنجیدہ کو ششیں کی جاتی ہیں۔طرح طرح کی مراعات اور سبسڈیز سے اس میں خاطر خواہ بہتری بھی لائی جاتی ہے۔مگر بدقسمتی سے ہمارا یہاں غریب کی بجائے اسکا وو ٹ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔لہذا”روٹی کپڑا اور مکان” کے خواب دکھا کرووٹ ہتھیانے کے بعد مڑ کر ان کی خبر لینا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔اسی لئے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں غربت صرف اپوزیشن کا ایشو ہے ۔عوام کو اپنے ساتھ ملانے اوراپنی سیاست چمکانے کے لئے یہ کارڈ خوب خوب استعمال کیا جاتا ہے اور ہماری بھولی بھالی عوام کو چند ہی مہینوں میںموجودہ حکومت کانسی اور گذشتہ سونا لگنے لگتی ہے ۔ہر ”تیز رو ”کو راہبر سمجھنے کی روش جانے کب تک چلے گی۔
آخر میں اُسکا ذکر ضروری ہے جسکی ملاقات اس کالم کامحرک بنی۔ہوا یوں کہ چند روز پیشتربس میں سفر کے دوان ایک رضا کار سے ملاقات ہوئی ۔اسکی زبانی یہ سن کر دھچکا لگا کہ اسکی تنخواہ صرف دو ہزار روپے ہے۔اس نے درد مندی سے خادم اعلیٰ سے اپیل کی ہے کہ اگر ایک رضاکارایسا ہی بے مقصد اور بے وقعت ہے تو پولیس کے محکمے سے انکو نکال دیا جائے۔اگر ایک کانسٹیبل کو بیس ہزار دئیے جا سکتے ہیں تو کیا انہیںان سے آدھی تنخواہ نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنی بیوی بچوں کا پیٹ پال سکیں۔آخر وہ بھی تو اس ملک کے شہری ہیں جہاں ایک فیکٹری کے ملازم کی بھی کم از کم تنخواہ انکی تنخواہ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔اس کی جس بات نے مجھے چونکایا اور میں اس کی بابت لکھنے پر مجبورہوا وہ یہ تھی کہ وہ آدمی رشوت سے بہرطوربچنا چاہتا تھا۔اس کا کہنا تھا ”جب ہماری جیب خالی ہوتی ہے تو ہمیں مجبوراًاوپر کی آمدنی کے لئے سوچنا پڑتا ہے۔
اس کے لئے ہم جو شکا ر ڈھونڈتے ہیں وہ بھی بیچارے ہمارے جیسے غریب افرادہی ہوتے ہیں۔ہمارا ضمیر ہمیں اس جرم پر بہت ملامت کرتا ہے لیکن ہماری مجبوری راہ کی دیوار بن جاتی ہے اور ہم اپنے بچو ںکا پیٹ پالنے کیلئے غریب کی جیب کاٹنے پرمجبور ہوجاتے ہیں”۔مجھے اس کے جذبے نے بہت متاثر کیا۔میراخیال ہے مثبت قدروں کے فرغ کے لئے انہیں یہ موقع ضرور ملنا چاہئے ۔کیا انکی تنخواہ میں اضافہ ممکن ہے ؟کیا یہ یومِ ِمزدوربھی زبانی جمع خرچ کی نذر ہوجائے گا؟صاحبانِ اختیار کویقینا اس پر سوچنے اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔کیاقیامت ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والی فلاحی ریاست کی عوام کی حالتِ زار پر یہ شعر صادق آتا ہے۔
زندگی تو نے ہمیں قبر سے کم دی ہے زمیں پاؤں پھیلائیں تو دیوار میں سر لگتا ہے