اسلام دینِ فطرت ہے۔ یہ دین مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے اپنے ماننے والوں کی زندگی کے ہر میدان میں رہنمائی کی ہے۔ معاشرے میں کوئی بھی فرد ہو، اس کی کوئی بھی حیثیت ہو، اسلام میں ہر کسی کے حقوق مقرر ہیں۔ درحقیقت دنیا میں انسانی حقوق کی بنیاد رکھنے والا مذہب ہی دینِ اسلام ہے۔ جب تک معاشرہ ان حقوق و فرائض کی پابندی کرتا رہتا ہے، امن وآتشی کا گہوارہ ہوتا ہے۔ محنت کر کے کما کر کھانا والے کی معاشرے میں عزت و احترام ہوتا ہے۔ اسلام نے بھی مزدور کی سماجی حیثیت، عزت اور مقام کو بلند کیا۔ جب مغربی دنیا میں مزدوروں کے حوالہ سے شعور بیدار ہوا تو یکم مئی کو یوم مزدور کے طور پر منانے کا آغاز کیا گیا۔ اسلام ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو جسمانی اور دماغی کسی بھی حلال طریقے سے محنت کر کے اپنی روزی کماتے ہیں۔ اسلام میں بھیک مانگنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ اسلام میں ان لوگوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو محنت کئے بغیر ناجائز طریقے سے کماتے ہیں۔ سب سے پہلے اسی دین نے ہی مزدور کو وسیع اور جامع ترین حقوق دیے۔
یہی دین مزدورں کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔مزدور کے حقو ق کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔آج مغرب مزدوروں کے بہت زیادہ نعرے لگایا ہے جبکہ اسلام نے آج سے 1400 پہلے ہی مزدور کے حقوق متعین کر دیے تھے۔قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں حلال رزق کمانے اوراللہ تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ چنانچہ سورہ جمعہ میں ارشادربانی ہے۔” جب نماز سے فارغ ہو جائو تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرو۔” اس آیت مبارکہ میں حلال رزق کمانے کو فضلِ الٰہی کہا گیا ہے۔احادیث میں بھی حلال رزق کمانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رزق حلال کی تلاش ہر مسلمان پر فرض ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام طریقے سے رزق کمانے والوں کے متعلق فرمایا: وہ آدمی جو حرام ذریعہ سے مال جمع کرتا ہے وہ خوش نہ ہو گا، اگر وہ اسے خیرات بھی کرے گا تو وہ ہر گز قبول نہ کی جائے گی اور جو باقی رہے گا وہ جہنم کے لئے زادِ راہ ثابت ہو گا۔ایک صحابی کے ہاتھ محنت مزدوری کرنے سے سوج گئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا کسب رزق میں مزدوری کرنے سے سوج جانے والا وہ ہاتھ ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند فرماتے ہے۔ نبی کریم کے آخری خطبہ حجة الوداع کو انسانی حقوق کا چارٹر کہا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”اپنے غلاموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، ان سے بہتر سلوک کرو، جو خود کھائو انھیں کھلائو، جو خود پہنو انھیں پہنائو، ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کرو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور جگہ پر ہاتھ سے کمانے والے آدمی کے متعلق یوں فرمایا:اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے جو آدمی اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے۔ ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنی محنت کی کمائی۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کیلئے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسول بھیجے۔ ان انبیاء کرام نے نہ صرف انسانوں کو ہدایت کی دعوت دی بلکہ خود محنت اور مزدوری کی ۔ ہر نبی نے بکریاں چرائیں اور گلہ بانی کی۔حضرت دائود علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے روزی کماتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” انہوں نے آٹھ یادس برس تک اس طرح مزدوری کہ کہ اس پوری مدت میں وہ پاک دامن بھی رہے اور اپنی مزدوری کو بھی پاک رکھا۔ (مشکٰوةشریف) آج انہی انبیاء کرام کے پیروکاروں کے معاشرے میں محنت اور مزدوری کو ذلیل شعبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ نبی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے ہمیں مزدور کی عزت و احترام کا پتہ چلتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ہاتھ سے کما کرکھانے والوں کو اللہ کا دوست کہا ہے۔ایک موقع پر ایک انصاری صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے تو اس نے جواب دیا کہ صرف کمبل اور پانی پینے کا پیالہ ہے۔
Muhammad PBUH
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ اس کو کون خریدے گا۔ ایک صحابی نے کہا کہ میں اسے ایک درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ ان کی اس سے زیادہ کوئی قیمت دے سکتا ہے؟ ایک اور صحابی نے اس کی قیمت دو درہم لگا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اشیاء ان کے حوالہ کیں اور دو درہم صحابی کو دے کر کہا کہ ایک درہم کی کلہاڑی اور ایک درہم کا گھر کے لیے سامان لے آئو۔ جب انہوں نے ارشاد مبارک کی تعمیل کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کلہاڑی میں دستہ لگا کر ان کو دیا اور فرمایا جائو اس سے لکڑی کاٹ کاٹ کر بیچو، اب پندرہ دن کے بعد میرے پاس آنا، وہ صحابی جب پندرہ دن کے دن حاضر ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کیا حال ہے؟ صحابی نے جواب دیا کہ میں نے دس درہم کما لیے ہیں ، جن میں سے چند درہم کے کپڑے اور چند درہم سے غلہ خریدا ہے۔اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا بھیک مانگ کر قیامت کے دن ذلت اْٹھانے سے یہ بہتر نہیں ہے؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خطبہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسے کام نہیں کرتے جس کو میں خود کرتا ہوں اللہ کی قسم میں تم سے زیادہ اللہ کا خوف رکھتا ہوں۔
درحقیقت اسلام نے معاشرے میں اس ایسی سوچ پیدا کر دی کہ جس سے ہر شخص محنت مزدوری میں فخراور بھیک مانگنے سے نفرت کرتا تھا۔ اس دور میں صحابہ کرام میں یہ جذبہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ کسی دوسرے پر اپنا معاشی بوجھ ڈالنا پسند نہیں کرتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام حلال رزق کمانے کیلئے ہر قسم کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے اور محنت و مشقت کرنے سے کبھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ صحابہ کرام مختلف پیشوں کے ذریعہ سے اپنا رزق کماتے۔چنانچہ حضرت خباب بن ارت لوہار تھے تو حضرت عبداللہ بن مسعود چرواہے تھے، حضرت سعدبن ابی وقاص تیر سازتھے تو حضرت زبیر بن عوام درزی، حضر ت بلا ل بن رباح گھر میں نوکر تھے تو حضر ت سلمان فارسی حجام، حضر ت علی کھیتوں میں مزدوری کرتے ، حضرت ابوبکر صدیق کپڑا بیچ کر گزر بسر کرتے تھے۔ وہ خلیفہ بننے کے بعد وہ کپڑا بیچنے کے لیے گھر سے نکلے ۔ راستہ میں حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ ملے۔ انہوں نے حضرت ابوبکر کو کہا کہ آپ تو مسلمانوں کے معاملات کے والی ہیں۔ آپ یہ کام کیسے کرسکتے ہیں۔
حضرت ابوبکر نے کہا کہ میں اگر کپڑا نہیں بیچوں گا تو اپنے بال بچوں کو کہاں سے کھلائوں گا۔ پھر ان کیلئے تنخواہ مقرر کر دی گئی۔یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کا ہی اثر تھا کہ ازدواج مطہرات اور صحابیات بھی محنت کرنے سے گھبراتی نہ تھیں۔ چنانچہ وہ گھروں میں اون کاتتی اور کھالوں کی دباغت کرتی تھیں۔حضرت اسماء بنت ابی بکر جانوروں کی خدمت اور جنگل سے لکڑیاں چن کر لا نے کا کام کرتی تھیں ،کچھ خواتین کھانا پکا کر اورکچھ دودھ نکال کر فروخت کرتی تھیں۔ کچھ صحابیات دایہ کا کام کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ نے حضرت زینب بنت حجش (زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بارے میں فرمایاکہ وہ اپنی محنت سے کماتیں اور للہ کی راہ میں صدقہ کرتیں تھیں۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام اپنے پیروکاروں کو جائز طریقے سے مال کمانے سے روکتا نہیں بلکہ ان کو ترغیب اور عزت و احترام دیتا ہے۔ چنانچہ محنت و مزدوری سے حلال رزق کمانا اور جائز پیشہ اختیار کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔ انبیائ، صحابہ ، صلحاء سب نے محنت مزدوری کر کے ہی ضروریات زندگی حاصل کیں۔ ہمیں ایک مسلمان ہونے کے ناطے محنت مزدوری کر کے حلال رزق کمانا چاہیے۔