تہران (جیوڈیسک) شام میں پرتشدد واقعات میں 62 افراد ہلاک اور 166 زخمی ہو گئے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وسطی شہرحمص میں ایک کار بم دھماکا ہوا جس میں 36 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے، بم دھماکے کے بعد ایک راکٹ حملہ ہوا جس میں مزید 9 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔ مرنے والے اکثر افراد کا تعلق علوی کمیونٹی سے تھا۔ شام کے صدر بشارالاسد بھی اسی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایک انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق مرنے والے تمام افراد عام شہری تھے جن میں 5 بچے بھی شامل ہیں۔ دریں اثنا وسطی دمشق میں ایک ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ پر مارٹر گولوں کے حملے میں 17 افراد ہلاک اور 80 زخمی ہو گئے۔ پولیس کے مطابق شہر کے شیعہ اکثریتی علاقے شاغور پر 4 مارٹر گولے داغے گئے جن میں سے دو گولے بدر الدین الحسینی ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ پر گرے۔ بدر الدین الحسینی ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ اسلامی قوانین کا ایک تعلیمی مرکز تھا اور اس میں 14 سال تک کے کم عمر طلبہ بھی زیر تعلیم تھے۔
دوسری طرف کیمیائی ہتھیاروں کو روکنے کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’’او پی سی ڈبلیو‘‘ نے کہا ہے کہ وہ شام میں مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے تحقیقات کے لیے ایک مشن بھیج رہا ہے۔ شامی حکومت نے اس مشن کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دے دی اور سیکیورٹی بھی مہیا کی جائے گی۔ ادھر ایران نے کہا ہے کہ شام میں انتخابات کے بعد امن ہو سکتا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان نے کہا کہ دنیا کو شامی شہریوں کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے۔ اے ایف پی کے مطابق اگلے مہینے ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے مزید 4 امیدوار سامنے آ گئے۔