یکم مئی کو دنیا بھر میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن اس بات کا عہد کیا جاتا ہے کہ مزدور کو انکے جائز حقوق دئیے جانے چاہیے اور شاید یہی وہ واحد دن ہے کہ جب دنیا بھر میں مزدور کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منائے جانے کے پیچھے قربانیوں کی ایک لمبی داستان کار فرما ہے۔ یکم مئی 1886ء کو امریکی ریاست اینوائس کے شہر شکاگو کے 80،80 ہزارمزدور احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے۔ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں آٹھ گھنٹے کام،آٹھ گھنٹے آرام اور آٹھ گھنٹے تفریح کا حق دیا جائے۔
یہ جلوس اس قدر منظم اور احتجاج اتنا شدید تھا کہ بڑے بڑے سرمایہ دار بھی ہل کر رہ گئے۔اُن سے بیس بیس گھنٹے غلاموں کی طرح کام کر کے دینے والے مزدور اپنے لیے صرف آٹھ گھنٹے ڈیوٹی مانگ رہے تھے جو سرمایہ داروں کے لیے نا قابل قبول تھااور وہ اس بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنا چاہتے تھے۔ایسے میں سرمایہ داروں نے پولیس اور متعلقہ حکام کی حدود حاصل کر لی ،وہ اس تحریک کو پروان چڑھنے سے پہلے کچل دینا چاہتے تھے ۔لہذٰا ان نہتے مزدوروں پر پولیس نے فائر کھول دیا جس سے “ہے مارکیٹ”میں جمع ہو نے والے مزدور خون میں لت پت ہو گئے ان کا خون زمین میں جذب ہو گیا مگر اس خون نے ایک ایسی تحریک کو جنم دیا جس نے دینا بھر کے مزدوروں کو منظم کر دیا۔ایک مزدور نے اپنی قمیص اتار کر اس خون سے رنگ لی تب سے یہی سرخ پرچم مزدوروں کی جدوجہد کی علامت بن گیا۔اس ریاستی دہشت گرد ی کے خلاف 2دن کے بعد 3مئی کو مزدوروں نے احتجاج کا پروگرام بنایا۔اس احتجاج کی قیادت مزدور لیڈر جارج اینجل اور اڈولف فشر نے کی۔توقع تھی کہ 20ہزار سے زائد مزدور احتجاج میں شامل ہونگے مگر پولیس کے خوف اور جلسے کے ناقص انتظام کی وجہ سے صرف پچیس سو مزدور احتجاجی اجتماع میں شرکت کر سکے۔
اس تمام صورتحال سے مزدوروں میں بددلی پیدا ہونے لگی۔ایسے میں ایک لیڈر آگسٹ سپائس ایک ویگن کی چھت پر چڑھ کر تقریرکرنے لگاجس سے مزدوروں کا حوصلہ بلند ہو گیا۔مزدوروں کے احتجاج میں جان پڑ گئی اور شکاگو کے میئر کارٹر ہنری پیرسن نے اس کا نوٹس لیامگر مزدوروں کو پرامن دیکھ کر وہاں سے واپس چلا گیا۔اس نے پولیس کو بھی ہدایت کی کہ ان مزدوروں کو تنگ نہ کیا جائے۔بعد ازاں جلسہ چلتا رہا اور دو مزدورلیڈروں البرٹ پارسن اور سموئیل فیلڈن نے بھی پرجوش تقاریر کیں۔اس وقت جلسہ گاہ میں صرف دوسو کے لگ بھگ مزدور باقی رہ گئے تھے کہ اس موقع پر اچانک پولیس کے سربراہ کیپٹن بونفیلڈ نے میئر کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے 176پولیس اہلکا روں کے ہمراہ جلسہ گاہ پر ہلہ بول دیا۔انہوں نے اس جلسے میں موجود لوگوں کو بری طرح زدوکوب کرنا شروع کر دیا ۔اس بد نظمی پر کسی نامعلوم شخص نے پولیس والوں پر ایک دستی بم پھینک دیا جس کے نتیجے میں پولیس کا ایک سپاہی متھیاس ڈیگن ماراگیااور کئی پولیس والے زخمی ہوگئے یہ دیکھ کر پولیس اشتعال میں آگئی اور اس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں 4مزدور جاں بحق اور 6پولیس اہلکارلقمہء اجل بن گے۔
Laborers Protest
اس واقعہ نے شہر میں سنسنی پھیلادی۔اگلے ہی روز مزدوروں پر عرصہ ء حیات تنگ کر دیا گیا مزدور لیڈروں کے گھر وں پر بغیر وارنٹ چھاپے مار کر گرفتار یاں شروع کر دی گئیں اور یوں آٹھ سو مزدور گرفتار کر کے اُن پر مقدمہ چلایا گیا۔مقدمہ جسٹس جوزف گیری کی عدالت میں چلا وہ شخص بذات خود مزدور مخالف تصور کیا جاتا تھا۔گو اس نے صفائی کی شہادتوں کی اجازت تو دے دی مگر پولیس کے خوف سے کوئی بھی شہادت دینے نہ آیا۔اس طرح سات مزدور لیڈروں کو سزائے موت سنا دی گئی ایک کو عمر قید ہوئی اور ایک سال تک اُنکی طرف سے اپیل نہ سنی گئی ۔بالآخر 11نومبر 1887ء کو لیڈروں کی پھانسی کا دن مقرر ہوااُس دن کو “یومِ سیاہ”کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔اینوائس کے گورنر اوگلسبے نے سزا پر عملدرآمد سے عین ایک روز قبل سموئیل فیلڈن اور مائیکل شوابے کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تاہم باقی قیدیوں کو پھانسی دے دی گئی ۔13نومبر1887ء کو انکی لاشیں ورثاء کے حوالے کر دی گئیں ۔یہ لوگ مزدوروں کے ہیرو بن چکے تھے۔انہیں انتہائی عقیدت کے ساتھ “جرمن والڈ ہیم”قبرستان میں دفن کر دیا گیا ۔ 1893ء میں “ہے مارکیٹ “کے شہداء کی یادگار قائم کی گئی یہ یادگار ایک گرینائٹ کا ستون ہے جس کے سامنے ایک خاتون کا کانسی کا بنا ہوا مجسمہ ہے جو ایک مرے ہوئے مزدور پر شاخ زیتون رکھ رہی ہے خاتون کے قدموں میں ایک گلدستہ پڑا ہے جس کے عین نیچے یہ عبارت کنندہ ہے۔ ایک دن آئے گا جب ہماری خاموشی آپ کی اونچی آواز سے زیادہ طاقتور ہوگی۔”اس یادگار کا افتتاح 25جون 1893ء کو مزدوروں کے ایک بڑے اجتماع میں کیا گیا دینا بھر سے مزدور رہنمائوں نے اس میں شرکت کی ۔
کئی ممالک کی جانب سے قبروں کی لیے پھولوں کی چادریں بھیجی گئیں ۔اگلے روز اینوائس کے گورنر نے بچ جانے والے مزدور لیڈروں نیٹے ،شوابے اور فیلڈن سے باقاعدہ معافی مانگی۔شوابے 1898ء اور نیٹے نے 1916ء میں وفات پائی جبکہ فیلڈن 1922ء میں فوت ہوا۔ اُن کو بھی شہداء کے قبرستان میںان کے حریت پسند ساتھیوں کے پہلو میں دفن کیا گیا۔امریکہ سے اُٹھنے والی مزدوروں کی اس تحریک کو بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں سوویت یونین میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی ۔ یو مِ مئی کو کمیو نسٹ دنیا نے نظریاتی علامت کے طور پر اپنایا اور اس میں شدت پیدا کی ۔ یوں کمیونسٹ ممالک میں یہ دن قومی تہوار کی اہمیّت حاصل کر گیا۔یومِ مئی کی تقاریب سرکاری سطح پر منائی جانے لگیںجن میں انٹر نیشنل سوشلسٹ کانفرنس نے اپنے اجلاس میں تمام سوشلسٹ قوتوں پر لازم قرار دیا کہ یکم مئی کو 8گھنٹے کا دن منایا جائے اور اس روز تمام مزدوروں سے کام بند کرنے کی اپیل کی گئی۔آج یومِ مئی عالمی سطح پر منائے جانے والے دنوں میں سب سے اہم دن سمجھا جاتا ہے۔یہ دن کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے نام پر منایا جاتا ہے مگر پاکستان میں کارخانوں پر کام کرنے والے مزدور اس کی اہمیّت سے بہت کم واقف ہیں ۔حالانکہ اس دن بڑے بڑے شہروں میں جلسے منعقد کیے جاتے ہیں اور جلوس بھی نکالے جاتے ہیں۔
اخبارات میں خصوصی کالم اور مضامین شائع کیے جاتے ہیں تاکہ مزدور طبقہ انہیں پوری طرح سمجھ کر اس دن ہونے والے واقعات کا اثرلیں اور مزدوری کاطبقاتی شعور اسے کسی طبقاتی تحریک میں تبدیل کر سکے اس دن دنیا کے اکثر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی چھٹی ہوتی ہے لیکن اسکے باوجود بڑی تعداد میں مزدور اوورٹائم کی غرض سے کارخانوں میں باقاعدہ کام پر چلے جاتے ہیں یہ مزدور عموما ً یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ مزدوروں کا عالمی دن ،عالمی ادارہ UNOنے مزدوروں کے لیے اسی طرح مخصوص کیا ہے جس طرح عورتوں کا عالمی دن ،نوجوانوں کا عالمی دن ،بچوں کا عالمی دن اور اساتذہ کا عالمی دن وغیرہ۔انہیں اس دن ہونے والی تمام تر دانشورانہ سرگرمیوں اور میڈیا پروگراموں کے باوجود یہ علم نہیں ہو پاتا کہ اس دن کے پسِ منظر میں اصل واقعات کونسے ہیں اور یہ واقعات دورِحاضر کے مزدور سے کیا تقاضہ کرتے ہیں ۔ اگربہت سادہ زبان میں مزدور طبقہ کو انکی اہمیّت سمجھائی جائے تو آج بھی مزدوروں کے اندر ایک نیا جذبہ اور نئی تحریک جنم لے سکتی ہے اس وقت وطن عزیز میں مزدوروں کے نام پر سیاست کرنے والی بڑی بڑی پارٹیاں بھی موجود ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان پارٹیوں نے ہمیشہ مزدوروں کا نام ہی استعمال کیا اور انہیں صحیح طور پرمنظم کر کے بنیادی تبدیلی کے لیے تیار نہیں کیا نہ ہی ان پارٹیوں نے مزدور کے مسائل کے حل کے لیے بنیادی کوششیں کی ہیں ماسوائے ایک دوپارٹیوں کے باقی سب صرف فرضی نعرے بازی کی حد تک مزدور دوست ہیں ۔ان حالات کے علاوہ مزدور تنظیموں میں جو اس وقت اکثر قیادت کا کام کر رہی ہیں وہ نہ صرف غیر نظریاتی ہے بلکہ ذاتی مفادات کی دلدل میں گھری ہوئی ہیں اسی وجہ سے مزدور طبقے کی حالت دِگرگوں ہے۔ کھیت مزدوروں کی کوئی تنظیم نہیں ۔غیر منظم شعبوںمیں کام کرنے والے مزدوروں کی کوئی یونین نہیں ۔صنعتوں میں ٹھکیداری کا نظام عروج پر ہے ۔ایسے اداروں میں یا تو یونین نہیں اوراگر یونین کوئی یونین ہے تو ٹھکیدار ہی اس کے عہدوں پر فائز ہیں ۔ورنہ مفاد پرست ٹریڈ یونین رہنمائوں کی طرف سے پاکٹ یونینوں کا دور دورہ ہے ۔نہ ہی حکومتی کتابوں میں موجود قوانین پر عملدرآمد ہو رہا ہے نہ ہی کم از کم تنخواہ کے قانون پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔
اکثراداروں میں 8گھنٹے کے اوقات پر عملدرآمد نہیں ہو تا نہ فیکٹری قوانین پر عمل ہو رہاہے۔نہ ہی مزدوروں کے لیے حفظانِ صحت کے قوائد پر عمل ہو تا ہے۔لاہور اور کراچی کی بلدیہ فیکٹریوں میں ساڑھے تین سو سے زائد مزدوروں کی جانیں اسی وجہ سے ضائع ہو گئیں ۔مختلف شہروں ،صنعتوں میں حادثات ہونا اور مزدوروں کی جانوں کا زیاں ہونامعمول بن گیا ہے ۔الفرض پاکستان میں مزدور و محنت کش طبقے کی حالت 1886ء کے شکاگو کے مزدوروں جیسی ہو چکی ہے ان حالات کو کیسے بدلہ جائے ؟ اس کا بہترین حل یہی ہو گا کہ مزدوروں کو اُن کی اہمیّت اور قربانیوں سے روشناس کروایا جائے اور اس سلسلے میں مزدور قائدین کو بھی مخلص ہونا ہو گا۔
پاکستان میں مزدوروں کی حفاظت کے لیے موجودہ قانون فیکٹریز ایکٹ 1934ء اتنا پرانا ،فرسودہ اور غیر کارآمد ہے کہ اسے دیکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔جہاں پولیس ایکٹ 1890ء تو تبدیل ہو چکا ہے مگر فیکٹریز ایکٹ 1934ء کو چھونا بھی کسی نے گواراہ نہیں کیا ۔پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں ورکرز کی صحت و سلامتی کے حوالے سے قانون سازی نہیں ہوئی اور جہاں حادثوں اور زخمی وبیمار ہونے کی شرح انتہائی بلند ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال کام پر ہونے والے حادثات میں سے ہر 1000ورکرز میں 150 ورکرز حادثات کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جبکہ ہزاروں ورکرز مستقلاًمعذور ہو کر ہمیشہ کے لیے بستر کے ہو کے رہ جاتے ہیں ۔اس صورتحال میں ہمیں اس امر پر غور کرنا ہو گا کہ ہر سال یومِ مئی کو محض تقریر اور مزدور حقوق کے بلندو بانگ دعوں کی بجائے عملی طور پر اقدامات کیے جائیں تاکہ وہ جن کے دم سے ہمارے معاشرے کی خوبصورتی ہے وہ جو ہمارے معاشرے کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوںپر اُٹھائے ہوئے ہیں اُنکی زندگی بھی سہل ہو۔ حضوراکرم ۖ رحمت اللعالمین کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے “محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ “نبی کریمۖ نے خود اپنے ہاتھ سے محنت کی ایک مرتبہ ایک شخص آپۖ کی خدمت میں حاضر ہوا جس کے ہاتھ مزدوری کی وجہ سے میلے تھے آپۖ نے اُس کے ہاتھ پر بوسہ دیا اور فرمایا “محنت سے ہلال رزق کمانا عین عبادت ہے۔” اس سے ہمیں محنت کش کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے آئیے آج ہم عالمی یومِ مزدور کے موقع پر اسے خراجِ تحسین پیش کریں کہ ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات۔۔۔۔۔۔۔۔۔