یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن کہلاتا ہے، یہ دن شکاگو کے ان مزدوروں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے مزدور طبقے کی بنیادی انسانی حقوق کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے یکم مئی 1886ء میں شکاگو کے مزدوروں نے اپنے کام کے اوقات چودہ گھنٹے سے آٹھ گھنٹے مقرر کرانے کے لیے پر امن جلوس نکالا مزدوروں کے ہاتھوں میں سفید پرچم تھے۔
پولیس نے سرمایا داروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے پر امن مزدوروں پر گولیاں چلا دی۔ سینکڑوں مزدور ہلاک ہوگئے چار لیبر لیڈروں کو پھانسی دی گئی ایک مزدور لیڈر نے پھانسی کا پھندہ اپنے گلے میں ڈالتے ہوئے کہا کہ سرمایا داروں تم ہمیں مار سکتے ہوں پر ہماری تحریک کو ختم نہیں کرسکتے، ایک اور مزدور لیڈر نے پیغام دیا کہ دنیا بھر کے محنت کشوں متحد ہوجائو تمہارے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔
یہ تھا کامیابی کا وہ سنہری اصول جیسے آج مزدور بھول گئے اور آج ذلت اور خواری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مصور پاکستان علامہ اقبال نے مزدوروں کی حالت زار دیکھ کر رب کائنات سے شکوہ کیا تھا۔
تو قادر و مطلق ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات،
علامہ اقبال فلسفی تھے انہوں نے مسلم سماج کا بڑی گہرائی سے مطالعہ اور تجزیہ کر رکھا تھا، انہوں نے مزدوروں کی خستہ حالی کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایا دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
تحریک پاکستان کا مرکزی نکتہ یہ تھا مسلمان مکار اور عیار ہندئوں کی بالادستی میں ترقی نہیں کرسکتے تھے اس لیے مسلمانوں نے اپنے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ہم نے پاکستان سرمایا داروں اور جاگیرداروں کے لیے نہیں بلکہ عوام کے لیے حاصل کیا ہے” مگر افسوس قیام پاکستان کے بعد مکار اور عیار اشرافیہ ریاست پر قابض ہوگئ اس نے مزدور کسان اور محنت کش افراد کا استحصال شروع کردیا جو آج تک جاری و ساری ہے، افبال کے بقول محنت کش سادہ ہیں اور سرمایا دار مکروفن کی چالوں سے بازی جیت گئے انہوں نے مزدوروں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرکے انکی طاقت کو توڑ دیا ہے۔ حبیب جالب نے درست کہا تھا۔
اٹھارہ کروڑ انسانو زندگی سے بے گانو صرف چند لوگوں نے حق تمہارا چھینا ہے خاک ہے اس جینے پر یہ بھی کوئی جینا ہے
قائداعظم کے بعد عوام ذوالفقار علی بھٹو دوسرے قوم پرست عوامی رہنما تھے جنہوں نے محنت کشوں کے حقوق کے لیے انقلابی اصلاحات جاری کیں تاریخ میں پہلی بار مزدوروں کو روزگار کا تحفظ دیا اور یکم مئی کو سرکاری چھٹی کا اعلان کیا، سرمایا دار اور جاگیرداروں نے انکو محنت کش عوام سے محبت کے جرم میں پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا، محنت کشوں کو با اختیار بنائے بغیر ملک ترقی نہیں کیا کرتے، امیر اور غریب کے درمیان معاشرتی فرق کو ختم کرنا ہو گا۔
Shahbaz Sharif
اب عوام حیران ہیں کہ میاں شہباز شریف چھ سال اقتدار میں رہے پنجاب میں مزدوروں کو بنیادی حقوق ملنے چاہیے تھے پر سب دعوے نکلے، مسلم لیگ ن تاجر اور صنعتکار دوست جماعت ہے جو افتدار میں آکر تاجروں اور صنعتکاروں کو مراعات دیتی ہے، ٹکیس میں ریلیف دینے کے لیے خصوصی ایس آرو جاری کیے جاتے ہیں، پی پی کی حکومت نے 2010ء میں مزدوروں کو یونین سازی کا حق دینے کی کوشش کی مگر مسلم لیگ ن نے سخت مزاحمت کی، پاکستان کے مزدور آج بھی بے بس لاچار اور مجبور ہیں، مزدوروں کے گھروں میں برسوں سے مزدور ہی پیدا ہورہے ہیں، جو کسان دھرتی کا سینہ چیر کر اناج اگاتا ہے اسکے بچے نان جویں کو ترستے ہیں کپڑا بننے والے مزدوروں کو اپنے بچوں کا تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا میسر نہیں ہے، آئی ایل او کے مطابق پندرہ لاکھ بھٹہ مزدور بشمول خواتین اور بچے قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں، اور انکا بد ترین استحصال ہورہا ہے انکو بارہ سے چودہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
جن بچوں کو اسکول جانا چاہیے وہ معصوم پھول ہوٹلوں امراء کے گھروں اور فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں، آج ڈرائیور سویپر چھابڑی فروش گھریلو ملازمین کلرک چپڑاسی ٹیچر تنگ دستی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، یہ وہ محنت کش لوگ ہیں اگر یہ آج کام چھوڑنے کا فیصلہ کرلے تو پاکستان میں پہیہ جام ہوجائے اور زندگی مفلوج ہوکر رہے جائے گی موقع پرست اور مفاد پرست لیبر لیڈر بھی محنت کشوں کی حالت زار کے ذمہ دار ہیں محسن انسانیت رسول اللہ کے پاس ایک محنت کش آیا اس نے بتایا کہ وہ لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرتا ہے اور روزی کماتا ہے۔
Pakistan
میرے پیارے آقا رسول اللہ نے اسکے ہاتھوں کو چوم لیا آپ کو غریبوں محنت کشوں یتیموں اور مسکینوں سے اس قدر ہمدردی تھی کہ آپ اپنے رب سے دعا کرتے کہ اے اللہ مجھے مسکین زندہ رکھ مسکین اٹھا اور مسکینوں کے ساتھ میرا حشر فرما (مشکوۃ) پاکستان کی کرپٹ اشرافیہ محنت کشوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق دینے کو تیار نہیں ہے، پاکستان کے کروڑوں محنت کشوں نے اپنے مقدر کا فیصلہ خود کرنا ہے، انکو اپنا حق مانگنے سے نہیں بلکہ چھیننے سے ملے گا، مزدور کسان محنت کش منظم اور متحد ہوکر انقلاب برپا کر سکتے ہیں، اور انقلاب کے نتیجے میں استحصالی طبقات سے نجات حاصل کر سکتے ہیں، موجودہ حالات میں عوامی انقلاب کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے، علامہ اقبال نے بھی اس آپشن کی نشاندہی کی تھی۔
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی روح امم کی حیات کشمکش انقلاب