اسلام آباد (جیوڈیسک) فوجی اور سول انٹیلی جنس ایجنسیوں میں ذرائع کا کہنا ہے کہ دارالحکومت کے اندر کام کرنے والے مذہبی مدرسے مبینہ طور پر عسکریت پسندوں اور ان کے شکار افراد کے درمیان سودے بازی کے انتظامات کے ذریعے بھتے اور تاوان کی رقم کی وصولی کے ساتھ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کی مدد کررہے ہیں۔
ذرائع نے مزید یہ بھی بتایا یہ مدرسے ٹی ٹی پی کے لیے رقوم کی پہلے سے مقررہ ایسے مقامات پر پہنچا کر جہاں ٹی ٹی پی کے کارندوں کی رسائی آسان ہو، کوریئر کی خدمات بھی فراہم کررہے ہیں۔ انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ بھتہ خوری اور تاوان کے مطالبہ کے کیسز کے لیے کی جانے والی فون کالوں کا تجزیہ کرنے سے یہ انکشاف ہوا کہ ان میں سے زیادہ تر شمالی وزیرستان میں میرانشاہ سے کی گئی تھیں۔
حکام نے ریٹائیرڈ لیفٹننٹ جنرل ڈاکٹر محمود الحسن کے کیس کا حوالہ دیا، جنہیں 2013ء میں ایک لطیف نامی شخص کی فون کال موصول ہوئی تھی، جس نے اپنا تعارف حکیم اللہ محسود کا نائب بتایا تھا اور پانچ کروڑ روپے بھتے کی رقم کا مطالبہ کیا تھا۔
بھتے کے مطالبے کے بعد اسلام آباد میں قائم ایک مدرسے کے منتظم نے اس سلسلے میں ثالث کا کردار ادا کیا اور یہ معاملہ ایک کروڑ روپے پر طے ہوا۔ اس کے علاوہ اسی شخص نے دوافراد کو لیفٹننٹ جنرل محمودالحسن کے پاس رقم کی وصولی کے لیے بھیجا تھا۔
ان حکام کا کہنا تھا کہ ’’اس کے بعد تقریباً ایک مہینہ پہلے کی بات ہے کہ اشفاق نامی ایک شخص نے لیفٹننٹ جنرل ڈاکٹر محمودالحسن کو دوبارہ فون کیا اور دس دن کے اندر اندر مزید پانچ کروڑ کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کال کے بعد جنرل محمودالحسن کو ایک اور فون کال موصول ہوئی، فون کرنے والے نے خود کو طالبان کا لیڈر بتایا اور ان سے کہا کہ وہ بہتر گھنٹوں کے اندر اندر انہیں رقم پہنچانے کا یقینی بندوبست کریں۔