صحرائے تھر جہاں آج بھی بچے بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں، گھاس پھونس سے بنی جھوپڑیاں ہی یہاں کے لاکھوں لوگوں کا مسکن ہیں۔ سرحد پر واقع علاقے نگر پارکر کے ایک گائوں میں امدادی سامان کی تقسیم کے دوران میں ایک ایسی ہی جھونپڑی میں قدم رکھا تو اس کے مکینوں نے پانی کا گلاس فوری پیش کیا۔ ان کی محبت دیکھ کر گلاس تھاما اور پینے کیلئے لبوں کے ساتھ لگایا گیا۔ پانی کا گھونٹ منہ میں داخل ہوا تو ایسے لگا کہ جیسے یہ پانی سادہ نہیں بلکہ بے تحاشا نمک گھول کر پیش کیا گیا ہے۔ دماغ کو جھٹکا لگا کہ کیا پئے جا رہا ہوں؟ کہیں یہ مذاق تو نہیں؟ فوراً خیال آیا کہ ”تھرپارکر کے لوگوں کا میٹھا پانی وہ ہے جو ہمارے ہاں میں کھارا اور نمکین ہوتا ہے” یہ پانی نجانے کتنی دور سے ہمارے لئے لایا گیا تھا، جسے یہ لوگ پینے کو ترستے ہیں۔ ابھی موسم گرما کا آغاز ہے اور یہاں موسم کی شدت ابھی سے اس قدر سخت تھی کہ پنجاب کی شدید سے شدید گرمی کا سامنا کرنے کے باوجود یہاں دماغ چکرانے لگا تھا، جس کے باعث فوراً سائے میں آنا پڑا۔ تھوڑی دیر بعد ہماری ایک اور علاقے سندوری کی جانب روانگی تھی۔
سندوری کا رخ کیا تو سڑک پر گدھوں کو دیکھا جن پر 35 لٹر والے کین لادے معصوم بچوں کا ایک گروپ انہیں ہانکے کسی دور منزل کی جانب رواں دواں تھا، جہاں سے انہیں یہ کین بھر کر لانے ہیں۔ پانی کے حصول کا یہ سفر کسی جگہ دو کلومیٹر سے کم نہیں ہے اور یہاں پانی لانے کیلئے ایک چکر مکمل کرنے میں کئی گھنٹے بھی صرف ہو جاتے ہیں، یعنی ان لوگوں کا دنیا میں آنے کے بعد زندگی کا بڑا حصہ پانی کے حصول کی جنگ لڑتے لڑتے ہی گزر جاتا ہے۔
سندوری میں سامان تقسیم کر کے واپس آ رہے تھے کہ ایک جگہ بارش کے جمع پانی کے ایک جوہڑ پر نگاہ پڑی جہاں سے جانور پانی پی اور نہا رہے تھے تو وہیں ڈیڑھ کلومیٹر دور سندوری گائوں سے آنے والی خواتین بھی 35لٹر کے پانی والے کین اور گھڑے بھر بھر کر سر پر اٹھائے واپس جا رہی تھیں۔ یہیں ایک کنارے گدھا گاڑیاں بھی پانی بھرنے کیلئے کھڑی تھیں۔ یہاں سے ہم ایک اور گائوں کی طرف گئے جہاں یہ منظر اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھا۔ یہاں تو جس پانی میں کتے نہا اور غلاظت پھینک رہے تھے، اس سے قریب ہی کھیلنے والے بچے پیاس لگنے پر ہمارے سامنے ہی ہاتھوں سے پانی پی رہے تھے تو عورتیں بھی پانی بھر بھر کر گھروں کو لے جا رہی تھیں۔جماعة الدعوة اور اس کا فلاحی ادارہ تو سالہا سال سے یہاں صاف پانی کی فراہمی کیلئے کنوئوں کی کھدائی میں مصروف عمل ہے اور اب تک فراہمی آب کے 500 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ مزید پر کام جاری ہے۔ اگلے روز کچھ ایسے ہی کنوئوں کے معائنے کا پروگرام طے تھا۔ مٹھی سے ایک بار پھر اسلام کوٹ اور پھر قریبی گائوں گوٹھ لبو کی جانب روانہ ہوئے۔ پختہ سڑک سے گاڑی نے اچانک صحرائی ریت کو چیرنا شروع کیا تو سامنے راستہ کوئی نہیں تھا، صرف اندازہ اور اللہ کا آسرا تھا۔ صحرا کی ریت پر تو ہماری طاقتور فور بائی فور گاڑی کی بھی جیسے جان نکل رہی تھی۔ اللہ اکبر پڑھتے اور خدا خدا کرتے تھوڑی ہی دیر بعد ہم ایک زیر تعمیر کنویں کے کنارے کھڑے تھے، جہاں ہمیں دیکھتے ہی آس پاس سے لوگ آن موجود تھے۔
ان لوگوں سے پوچھنا شروع کیا کہ کنواں کتنے دن میں تیار ہو گا؟ تو جواب ملا ”ڈیڑھ سے دو ماہ میں ماہ” میں… ابھی کنویں کی گہرائی 60فٹ تک تھی اور ایک مزدور اندر جبکہ 4۔ 5باہر کام کر رہے تھے۔ یہاں کنویں کی تیاری اوپر سے نیچے کھدائی کرتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اسے سیمنٹ کے ذریعے سے پختہ بنا کر ہوتی ہے۔ باہر کھڑے مزدور سیمنٹ اور بجری تیار کر کے نیچے اتارتے ہیں اور نیچے کھدائی کرنے والا مستری جہاں مٹی اور پتھر کھودتا اور انہیں باہر نکالتا ہے تو وہیں ساتھ ہی ساتھ سیمنٹ لگا کر کنواں بھی بناتا چلا جاتا ہے… نیچے سیمنٹ، بجری پہنچانا اور پھر مٹی اور پتھر باہر نکالنا اور اندر کام کرنے والے مستری کو اتارنا اور چڑھانا انتہائی جان جوکھم والا مرحلہ ہوتا ہے۔ کہیں اس کام کے لئے 5سے 7افراد مل کر رسہ کھینچتے ہیں تو کہیں یہ کام اتنے ہی افراد کے ذریعے سے چرخی گھما کر لیا جاتا ہے اور کہیں یہ کام دو گدھوں کے گلے میں رسی ڈال کر اور انہیں کئی افراد کے ساتھ ہانک کر اور مل کر زور لگاتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
Tharparkar People
100 فٹ نیچے جانے کے بعد آکسیجن کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور پھر جیسے جیسے نیچے نمی اور پھر پانی آنا شروع ہوتا ہے، تعمیراتی کام مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ نیچے کام کرنے والا مستری ہر 15سے 20منٹ بعد باہر آتا ہے اور سانس بحال کرنے کے بعد دوبارہ نیچے اترتا ہے، ساتھیوں نے اصرار کیا کہ آپ بھی ذرا نیچے اتر کر نظارہ تو کیجئے… اسی کے ساتھ 60فٹ نیچے کنویں میں اترتے ہوئے دل دھک دھک کرنے لگا۔ نیچے پہنچ کر یوں لگا جیسے کسی نیم گرم تنور میں داخل ہو گیا ہوں۔ نیچے کام کرنے والے مزدور کا جسم پسینے سے شرابور اور کپڑے مکمل طور پر تر تھے تو پسینہ پائوں سے بھی نیچے بہتا جا رہا تھا۔ ان لوگوں سے پوچھنا شروع کیا کہ اس کنویں کی تعمیر کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ تو سبھی کی زبان سے نکلنے والے الفاظ دعائوں پر ہی مشتمل تھے۔ ساتھ ہی کہہ رہے تھے کہ یہ کنواں مکمل ہونے کے بعد ان کا میلوں کا سفر کم ہو جائے گا، ہم، ہمارے بچے اور عورتیں قریب سے ہی پانی بھر لیں گے، اور جب تک ہم زندہ ہیں آپ کو ہمیشہ دعائیں دیتے رہیں گے۔یہیں کھڑے کھڑے ایک طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا تو ایک سرکاری ٹیوب ویل خشک و ویران پڑا نظر آیا۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ تقریباً تین سال پہلے یہاں سرکاری ٹیوب ویل لگایا گیا تھا۔ تیسرے دن موٹر جل گئی، اس کے بعد آج تک نہ دوبارہ بجلی آئی اور نہ موٹر درست کر کے اسے چلایا گیا۔ ہم جائیں تو جائیں کہاں؟ فریاد کریں تو کس سے کریں…؟ اسی دوران میں اسلام کوٹ شہر میں پہنچے تو اندازہ ہوا کہ پانی کا مسئلہ صرف دور دراز پھیلی صحرائی بستیوں کا ہی نہیں بلکہ ایک بڑے اور مرکزی شہر اسلام کوٹ کا بھی ہے جہاں دور دراز بنے کنوئوں سے گدھا گاڑیوں پر پانی لایا جاتا اور پھر بھاری قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔
یہاں دور تک پانی لے جانے کے لئے گاڑیوں کے ٹائروں میں استعمال ہونے والی ٹیوبیں بھی ہیں جنہیں گدھوں اور اونٹوں پر لادا جاتا ہے۔ تھرپارکر کے ضلعی ہیڈ کوارٹرز مٹھی میں امدادی آپریشن کے دوران میں جب پانی کا اہتمام کیا گیا تو اونٹ کے پانی کے ایک پھیرے پر 100روپے معاوضہ ادا کیا جاتا تھا۔ یہاں کئی ہفتے لوگوں کو پانی پلانے کا اسی طرح دن رات اہتمام کیا جاتا رہا اور اس میں حصہ ڈالنے والے یقینا اللہ کے حضور اجر عظیم اور جنت کے حقدار قرار پائیں گے، کیونکہ پانی پلانے کا عمل تو اس قدر عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے ایک فاحشہ و بدکار عورت کو بھی بخش دیتا ہے جس نے ایک کتے کو اپنے جوتے کے ذریعے سے کنویں سے نکال کر پانی پلایا تھا… (بخاری) اور قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بھی سوال کریں گے کہ میں دنیا میں پیاسا تھا اور تو نے مجھے پانی نہیں پلایا تھا۔
سوال و جواب پر اللہ کی طرف سے بتایا جائے گا کہ دنیا میں ایک مرتبہ جو شخص تیرے پاس پانی کیلئے تڑپتا، پیاسی حالت میں پانی مانگنے آیا تھا، اگر تو اسے پانی پلا دیتا تو اسے پانی پلا کر میری رضا کو حاصل کر کے جنت بھی پا لیتا… (مفہوم حدیث) انہی لوگوں کیلئے ہی ایک کنویں کا سوال ہے… پانی کے ایک گھونٹ کا سوال ہے… جو ہمیں یہاں ہر انسان ہی نہیں ہر ذی روح کرتے نظر آیا۔ کون ہے جو اس کیلئے آگے بڑھے۔تھر کے ان پیاسوں کے لئے اگر آپ بھی تعاون کرنا چاہیں تو لازم رابطہ کریں۔
Ali Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین فون نمبر: 042-37230550-0333-8444992